• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت سے چینی اور کپاس کی درآمد کی شکل میں تجارتی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ بدھ کے روز اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد نئے وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر کی پریس کانفرنس میں اس وضاحت کے ساتھ منظر عام پر آیا کہ کامرس منسٹری کی اس تجویز کو وزیر اعظم کی منظوری حاصل ہے تو مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کے مظالم اور اسے ناجائز دستوری ترمیم کرکے بھارت کا حصہ قرار دیے جانے کے تناظر میں ملک بھر میں اس پر شدید منفی ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ تاہم یہ امر اطمینان بخش ہے کہ جمعرات کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کئی وزراء نے مؤثر دلائل کی بنیاد پر اس فیصلے سے اختلاف کا واضح اظہار کیا جس پر یہ فیصلہ مؤخر کردیا گیا ۔ اس کے بعد جمعے کو وزیر اعظم نے وزیر خارجہ، وزیر منصوبہ بندی ، وزیر انسانی حقوق اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے فیصلہ واپس لینے کا اعلان کیا اور غیرمبہم الفاظ میں صراحت کی کہ جب تک کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں ملتا اس وقت تک بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال نہیں ہوسکتے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمارا اصولی مؤقف یہی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر تجارت نہیں کرسکتے‘ انہوں نے بھارت سے تجارت کی بحالی کے فیصلے کو واپس لینے کے حق میں یہ دلیل بھی دی کہ ’’اس سے یہ ایک بُرا تاثر جائے گا کہ ہم کشمیر کو نظر انداز کر رہے ہیں اور بھارت کے ساتھ تجارت کرنے چلے ہیں۔‘‘غلطی مان لینا اور اس سے رجوع کرلینا بہرصورت درست طرز عمل ہے لیکن بدھ سے جمعے تک تین دنوں میں حکومتی اقدامات نے اس تاثر کو مزید گہرا ضرور کردیا ہے کہ موجودہ دور میں حکومتی فیصلے معاملات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے بغیر جلد بازی میں کردیے جاتے ہیں اور بعد میں ان کی ناقابل فہم تاویلات کی جاتی رہتی ہیں۔ مثلاً بھارت سے چینی اور کپاس خریدنے کے فیصلے پر وفاقی مشیر قومی سلامتی معید یوسف کی یہ توجیہ جس قدر کھوکھلی ہے اسے ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل اور وضاحت کی ضرورت نہیں کہ عمران خان نے یہ فیصلہ بحیثیت وزیر تجارت کیا تھا اور بحیثیت وزیر اعظم اسے واپس لے لیاچنانچہ اس پر اعتراض بے جواز ہے۔ حکومتی اقدامات میں افراتفری کی جو کیفیت ہے اس کا اندازہ ان تین دنوں کی واقعاتی صورت حال سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔بدھ کے روز وفاقی وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں بھارت سے تجارت کے فیصلے کی وجوہات پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر ہم نے پوری دنیا سے درآمدات کی اجازت دی لیکن باقی دنیا میں بھی چینی کی قیمتیں زیادہ ہیں جس کی وجہ سے درآمد ممکن نہیں لیکن ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں چینی کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں کافی کم ہے لہٰذا ہم نے نجی شعبے کے لیے بھارت سے پانچ لاکھ ٹن تک چینی کی تجارت کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس موقع پر انہوں نے مزیدکہا تھا کہ پاکستان میں اس وقت کپاس کی بہت زیادہ مانگ ہے، ہماری ٹیکسٹائل کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے مگر پچھلے سال کپاس کی فصل اچھی نہیں ہوئی تھی تو آج وزارت تجارت کی تجویز پر ہم نے اقتصادی رابطہ کمیٹی میں فیصلہ کیا ہے کہ بھارت سے کپاس کی درآمد کی بھی اجازت دی جائے گی۔واضح رہے کہ تجارت کی وزرات کا قلمدان بھی وزیر اعظم کے پاس ہے۔جمعرات کو وفاقی کابینہ بھی اس فیصلے کی منظوری دے دیتی تو اس پر عمل درآمد میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں تھی کیونکہ فیصلے کا اعلان تو وزیر اعظم کی منظوری ہی سے ہوا تھا۔لیکن وزیر خارجہ ، وزیر منصوبہ بندی، وزیر انسانی حقوق اور وزیر داخلہ سمیت وزراء کی جانب سے فیصلے سے اختلاف نے اس غلطی کی اصلاح کی راہ ہموار کی ۔امید ہے کہ آئندہ ایسی صورت حال کا اعادہ نہیں ہوگا اور ضروری سوچ بچار کے بغیر فیصلوں سے مکمل اجتناب کیا جائے گا۔

تازہ ترین