• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
اس سے بڑی بدنصیبی نہیں ہوسکتی کہ کسی کیلئے دعائوں کے ساتھ اٹھنے والے ہاتھ اس جہان فانی سے ابدی دنیا کو رخصت ہوجائیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر میں کورونا کی صورتحال کے باعث وہ فرد (جو کہ میں خود ہوں) ان کا آخری دیدار بھی نہ کرسکے۔ میں اپنی ماں کی اکلوتی اولاد ہوں اور وہ میری کم عمری ہی میں وفات پا گئی تھیں۔ چچا کرم داد خان شہید نے 1965ء کے موسم برسات میں راجوری سیکٹر میں پاکستان سے گئے ہوئے کشمیری مجاہدین کے ایک دستہ کی قیادت کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کی خاطر جان قربان کی، وہ آزاد جموں و کشمیر ریگولر فورسز کی ایلیٹ فورس کا حصہ تھے۔ ان کے ساتھی جو جنگ بندی کے بعد واپس آئے انہوں نے بتایا کہ وہ پوری کوشش کے باوجود ان کا جسد خاکی واپس نہ لاسکے۔ ہزاروں دوسرے کشمیری شہداء کی طرح میرے خاندان کا بھی یہ قرض کسی نہ کسی شکل میں بھارتی حکومت نے ادا کرنا ہے ،ہم منتظر ہیں شہید کی بیوہ چچی صاحبہ سلطان بیگم مرحومہ کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا محمد اکرم خان ہیں، بہت نیک دل خاتون تھیں میں جب بھی واپس جاتا چچی صاحبہ مرحومہ اپنے خاندان کی پہلی خاتون ہوتیں جو مجھے ملنے آتیں اور واپسی پر الوداع کہنے تشریف لاتیں۔ مرحومہ بلند حوصلہ اور کچھ کرنے کا جذبہ رکھنے والی خاتون تھیں، غربت اور تنہائی میں بھی کبھی کسی حوالہ سے ہمت نہ ہارنے والی یہ خاتون کئی برس تحریک آزادی کی ایک سرگرم آواز بنی رہیں، جب آزاد کشمیر اور پاکستان میں جہاد کشمیر کے حوالے سے کام ہو رہے تھے، رضا کاروں کے قافلے جارہے تھے، جہاد کشمیر کی بات کرنے پر عملاً پابندیاں نہیں لگی تھیں، مرحومہ اپنے خاندانی تعلق کی بنا پر تحریکی ایکٹیویٹی کی پُرزور حامی رہیں۔ پچھلے 30 برس کے دوران دو بار برطانیہ آئیں، پہلی بار چھ ماہ رہنے کے بعد واپس چلی گئیں اور دوسری بار ایک سال کے بعد واپسی اختیار کرلی۔ انہیں اپنے گائوں کا کھلا ماحول اور رشتہ دار خواتین کے ساتھ مل بیٹھ کر بات چیت کا ماحول بہت پسند تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس معاشرت کا حصہ نہ بن سکیں۔ نثار بتاتی ہیں کہ چچی صاحبہ اکثر کہتی تھیں کہ علم نہیں کشمیر کو آزاد ہونے کیلئے مزید کتنی شہادتوں کی ضرورت ہے، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈتے ہوئے چچی صاحبہ اس دنیا سے چلی گئیں اور علم نہیں کہ ہماری کون سی اگلی نسل کو اس سوال کا جواب مل پائے گا۔ پاک، بھارت تعلقات نارمل ہونے کے ملے جلے اشارے جمود توڑنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ میری اہلیہ اور دو بیٹے مرحومہ کی تدفین میں شریک ہوئے، ابیٹوں کیلئے آزاد کشمیر میں کسی تدفین کو خود دیکھنا اور اس میں حصہ لینے کا یہ پہلا موقع تھا۔ والدین کے آبائی گائوں میں ان مشکل حالات میں جو نظم و ضبط انہیں دیکھنے کو ملا اس نے ان پر مثبت اثرات چھوڑے ہیں، مرحومہ کو اپنی بیٹیوں اور ان کی اولادوں سے بچھڑے تین ہفتے ہوچکے ہیں، ہر کوئی غم میں نڈھال ہے، ان کے جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور کہتے ہیں ہر چالیس نماز جنازہ پڑھنے والوں میں سے ایک کی دعا ضرور قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے، مجھے اب اپنی اس ماں ہستی سے یہ کہہ کر کہ اناللہ وانا الیہ راجعون، اجازت لینی ہے، مرحومہ کی موت اپنی بیٹیوں کے خاندانوں کیلئے ایک بہت بڑا خلا پیدا کر گئی ہے کیونکہ ان دو گھرانوں کی زندگی میں مرحومہ کو مرکزی مقام حاصل تھا، مرکزیت کھو جانے کے بعد فی الحال زندگی ایک جگہ آکر رک گئی ہے، تمام بہن بھائیوں سے مرحومہ اور لواحقین کیلئے دعائوں کی درخواست ہے۔
تازہ ترین