• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی عقل مند نے کہا تھا کہ ’’ جب کبھی آپ کا اعتماد متزلزل ہونے لگے تو یاد رکھیں کہ آپ کتنا سفر طے کر چکے ہیں ، کتنی مشکلات کا کامیابی سے سامنا کیا ہے، کون کون سی جنگ جیت چکے ہیں اور کس کس خوف پر آپ نے قابو پایا ہے ‘‘۔پاکستان کو طویل عرصے سے کئی محاذوں پر بحرانی کیفیت کا سامنا رہا ہے اور اس بات کے بہت کم آثار دکھائی دیتے ہیں کہ ہم ان سے جلد چھٹکارا پا سکیں گے۔ پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ ان لوگوں کا گھنائونا کردار ہے جن کے ذاتی مفادات نے بدعنوانیوں کی متعدد داستانیں رقم کیں۔ یہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے سیاسی میدان میں آتے ہیں اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دیتے ہیں لیکن ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے کبھی ملکی بقاو سلامتی کیلئے بھی سوچا ہو۔ کئی دہائیوں سے حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ نے اپنے اردگرد حفاظتی حصار قائم کر رکھا تھا اور ان کا اثر ملک پر انتہائی مضبوط ہو چکا تھا۔ اس مفاد پرست اشرافیہ نے اپنی غیرقانونی کارروائیوں کا جال بچھا رکھا ہے جس کا مقصد ریاست کو نسل درنسلیرغمال بنائے رکھنا، بدعنوانی کے کلچر کو فروغ دینا ،قومی خزانے کے بل بوتے پر اپنے مالی مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ،کاروباری مارکیٹ پر اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کے لئے اپنے کارندوں کی پشت پناہی کرنا اور ایوان اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے ریاستی اداروں کو تقسیم کرکے سیاست کرنا ان کرپٹ عناصر کا شیوہ بن چکا تھا۔ ان سیاستدانوں کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ ایک غیرفعال ریاست کی شکل میں سامنے آیا جہاں ہمیشہ بدعنوانی کا کلچر پروان چڑھایا گیا اور مخصوص ٹولے نے اپنی بدعنوانیوں کے ذریعے ریاستی مشنری کو اپنے تابع رکھا۔

عمران خان الگ سوچ اور وژن کے ساتھ ایسے وقت میدان میں اترے جب ملک پر پوری طرح مایوسیوں کے بادل منڈلا رہے تھے ، ریاست اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ کر چکی تھی۔ ملک صحیح ڈگر سے ہٹ چکا تھا اور رفتہ رفتہ بڑھتے قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دب رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑا چیلنج چند سیاسی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی تحریک تھا ،یہ وہ لوگ تھے جو تحریک انصاف کے شروع کئے گئے احتسابی عمل کا سامنا کرنے سے خوفزدہ تھے۔ سیاسی جماعتوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انتخابی نتائج میں ردوبدل کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ انہیں اس بات کا گمان تھا کہ شاید وہ ماضی کی روایات کے مطابق بات چیت کے ذریعے کسی سمجھوتے تک پہنچ جائیں گے اور انہیں ایک بار پھر محفوظ راستہ مل جائے گا جس کے بعد وہ دوبارہ اقتدار کی راہداریوں تک پہنچنے کا انتظار کریں گےلیکن عمران خان نے مفاد پرست سیاسی ٹولے کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا کیونکہ وہ ایک روایتی سیاستدان نہ کبھی تھے اور نہ کبھی بن سکیں گے۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے ان کا ایجنڈا یکسر مختلف تھا۔ اس عمل میں وہ ملک کو لوٹنے اور غریب عوام کا خون چوس کر اپنی ذاتی تجوریاں بھرنے والے طبقے کی طرف سے اپنی راہ میں ڈالی جانے والی تمام رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار تھے۔

عمران خان پر ذاتی نوعیت کے الزامات عائد کرنے کے ابتدائی مرحلے کے بعد مفاد پرست سیاسی ٹولہ وزیراعظم کی احتساب کی پالیسی کو سبوتاژ کرنے کے لئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرکے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو گیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم کے اندر اختلافات بڑھتے گئے اور اس کی سیاسی ساکھ کمزور ہونے لگی یہاں تک کہ آخرکار چند جماعتوں نے چند دیگر جماعتوں کو شوکاز نوٹس تک جاری کر دیئے جس کے ساتھ ہی یہ اتحاد اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔اپوزیشن کے باہمی اختلافات اور اتحاد کمزور پڑنے کا وقتی طورپر حکومت کو فائدہ پہنچا ہے لیکن یہ فائدہ قلیل المدتی ہو سکتا ہے کیونکہ مہنگائی کا جِن کنٹرول نہیں ہو پا رہا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی ہمیشہ سے اولین ترجیح رہی ہے لیکن حکومت کے اقدامات مفادپرست ٹولے کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں جن کو ہمیشہ اشرافیہ کی پس پردہ حمایت حاصل رہی ہے جو زیادہ تر حکومتی ایوانوں میں موجود ہوتے ہیں اور جن کے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہوتے ہیں۔ حکومت نے اس حوالے سے بہت سے اقدامات کئے ہیںلیکن جب تک منافع خوروں کو قانون کی گرفت میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک حکومتی اقدامات کے ثمرات کا غریب عوام تک پہنچنا ممکن نہیں۔حکومت وقت کو اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ماضی میں جس طرح حالات پر قابو پانے کی کوشش کی گئی ، موجودہ حالات میں وہ ممکن نہیں ہوگا چنانچہ حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیاں ضروری ہیں۔ یہ کوئی معمولی جنگ نہیں بلکہ یہ ملک کی بقا و سلامتی کی جنگ ہے۔ جس کا یقین کی کیفیت کے ساتھ گہرا تعلق ہے جو انسان کے اندر موجود ہوتی ہے۔ یہ وہی یقین ہے جو عمران خان کی کامیابیوں کا محور رہا ہے اور یہ وہی یقین ہے کہ جو انہیں لوگوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک ختم کرنے اور ملک کو اس کی اصل روح کے مطابق چلانے میں رہنمائی فراہم کرے گا۔

(صاحب تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

تازہ ترین