مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میرے مرحوم والد زندگی بھر اسلام کے زرّیں اصولوں پر کاربند رہے۔ انہوں نے ہمیشہ ایمان داری سے رزق حلال کمایا اور ہمیں بھی اس کی تلقین کرتے، جب کہ زکوٰۃ کی ادائی کے معاملے میں تو انتہائی سخت تھے۔کہا کرتے تھے کہ ’’زکوٰۃ نہ نکالنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے، چناں چہ زکوٰۃ کی ادائی لازمی ہونی چاہیے۔ کیوں کہ جب کوئی بندہ زکوٰۃ نکالتا ہے، تو اللہ اُسے دینی فوائد توعطا فرماتا ہے،لیکن ساتھ مال میں برکت، اضافے اور پاکیزگی کے علاوہ اُس کی حفاظت بھی فرماتا ہے۔‘‘
سونا، چاندی زیورات کی شکل میں نہ صرف خواتین کی آرائش و زیبائش کا سامان کرتے ہیں، بلکہ مشکل وقت میں معاشی مسائل کے حل کا وسیلہ بھی بن جاتے ہیں،تو نصاب کے مطابق زکوٰۃ ادا کرتے رہنے سے یہ ہمیشہ محفوظ بھی رہتے ہیں۔مَیں اگرچہ سونے کے زیورات کی اتنی شوقین نہیں، لیکن والدین کا دیا ہوا کافی زیورات میرے پاس موجود تھا اور اسی حوالے سے میری زندگی میں چند ایسے واقعات پیش آئے، جومیرے لیے ناقابلِ فراموش ہیں۔
پہلا واقعہ تقسیمِ ہند سے کچھ عرصہ پہلے پیش آیا۔ اگرچہ اُس وقت میں کم سِن تھی، لیکن اُس دَور کی دُھندلی دُھندلی سی یادیں آج بھی ذہن میں موجود ہیں۔ مجھ سے تین سال بڑی بہن کو اس واقعے کی تفصیل اچھی طرح یاد تھی، جو اکثر مجھے سنایا کرتی تھی۔ میرے والد کا تعلق شیخوپورہ کے ایک گائوں سے تھا۔ وہاں اُن کی کچھ آبائی زمینیں بھی تھیں۔ والد صاحب کو زمینی معاملات کے بجائے حصولِ تعلیم سے دل چسپی تھی، چناں چہ تعلیم کی غرض سے لاہور چلے گئے اور شہر کے ایک مشہور کالج سے بی کام کیا۔ اسی دوران اُن کی شادی ہوگئی اور صاحبِ اولاد بھی ہوگئے، تو گائوں واپس جانے کے بجائے مستقل شہر ہی میں رہنے کا فیصلہ کرکے ملازمت کے حصول کے لیے تگ و دو شروع کردی۔ جلد ہی انہیں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی اور پشاور اسٹیشن میں تعیناتی ہوگئی، تو چند ماہ بعد ہماری والدہ اور ہم دونوں بہنوں کو بھی پشاور بلالیا۔
ہماری والدہ بہت سلیقہ مند حاتون تھیں۔ بڑی سمجھ داری سے گھر کے اخراجات چلاتیں اور تھوڑی بہت بچت بھی کرلیتی تھیں۔ جب بھی والد صاحب کے ساتھ گھر کے لیے سودا سلف لینے بازار جاتیں، سنار کی دکان سے ایک آدھ سونے کا زیور خرید لاتیں، جو خود بھی پہنتیں اور ہمیں بھی پہناتیں۔ انہوں نے کم سِنی ہی میں ہمارے کان چِھدوا کر سونے کی بالیاں پہنادی تھیں۔ پشاور میں جہاں ہم رہتے تھے، یوں تو گنجان آباد علاقہ تھا، مگر ہمارے گھر کے سامنے والی گلی عموماً سنسان ہی رہتی تھی۔ والدین کی خاص ہدایت تھی کہ گلی میں مت جانا۔
جو کھیلنا ہے، گھر کے اندر ہی کھیلو۔ تاہم، گھر کے مرکزی دروازے تک کھڑے ہونے کی اجازت تھی۔ ہم دونوں بہنوں کو والد صاحب کے ڈیوٹی سے واپسی کا بے چینی سے انتظار رہتا تھا۔ ہم دروازے کے پاس اُس وقت تک کھیلتی رہتیں، جب تک کہ والد صاحب آ نہ جاتے، اور پھر جب انہیں گلی میں داخل ہوتے دیکھتیں، تو خوشی سے اچھلنے کودنے لگتیں۔ کبھی کبھار اُنہیں آنے میں دیر ہوجاتی، تو بے چین ہوکرامّی کی نظر بچاکر گلی میں نکل جاتیں اور جوں ہی گلی کی نکّڑ سے والد صاحب کو سائیکل پر آتے دیکھتیں، دوڑ کر دروازے پر جاکر کھڑی ہوجاتیں۔ یہ واقعہ جس دن پیش آیا، اُس روز بھی والد صاحب کے آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی تھی، ہم دونوں بہنیں کافی دیر تک اُن کی راہ تکتے تکتے دروازے سے نکل کر گلی میں نکل گئیں۔
ابھی ہم چند قدم ہی آگے بڑھی تھیں کہ اچانک لمبی لمبی مونچھوں والا ایک موٹا سا آدمی ہمارے قریب آکر کھڑا ہوگیا اور میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھنے لگا ’’تمہارے والد گھر آگئے؟‘‘ ہم سمجھیں کہ شاید والد صاحب کا کوئی جاننے والا ہے۔ ہم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا ’’ابّو ابھی تک نہیں آئے۔‘‘ تو وہ بے تکلّف ہوکر بولا، ’’آج تمہارے ابّو کو آنے میں دیر ہوجائے گی، چلو میرے ساتھ، میں تمہیں مٹھائی لے کر دیتا ہوں۔‘‘ ہم دونوں بہنوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ بڑی بہن مٹھائی کی بہت شوقین تھی۔ اُس نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم اُس آدمی کے ساتھ چل پڑیں۔ وہ ہمیں گلی کی مخالف سمت لے کر چلنے لگا۔
ابھی چند قدم ہی چلے ہوں گے کہ اُس نے میری کان کی بالی کی طرف اشارہ کرکے کہا ’’تمہاری بالی تو کان سے گرنے والی ہے، لائو میں اس کا لاک لگادوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرا کان پکڑ کر اس قدر زور سے مروڑا کہ میری چیخ نکل گئی۔ میری بہن نے یہ دیکھا، تو اس نے جلدی سے مجھے کھینچ کر خود سے لپٹالیا اور اس شخص کی طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’بالی کا کوئی لاک واک کُھلا ہوا نہیں ہے، تم جائو یہاں سے۔‘‘ وہ جانتی تھی کہ بالی کا کنڈا اچھی طرح لاک ہے اور آسانی سے نہیں کُھل سکتا۔ مگر وہ شخص باز نہ آیا اور بہن کی بات سُنی اَن سُنی کرکے دوبارہ میرا کان مزید تیزی سے مروڑنے لگا۔ مَیں تکلیف سے رونے لگی۔
بہن نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا، لیکن پوری گلی سنسان تھی، ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اس افتاد سے کیسے نمٹے، معاً اس کی نظر گلی کی نکّڑ پر پڑی، جہاں سے والد صاحب سائیکل پر سوار گلی میں داخل ہورہے تھے۔ انہیں دیکھتے ہی بہن نے چیخ کرکہا ’’ابّو جی آگئے۔‘‘ یہ سنتے ہی اس شخص نے سر اٹھا کر والد صاحب کی طرف دیکھا تو فوراً میرا کان چھوڑ کر برق رفتاری سے دوڑتا ہوا بائیں جانب والی گلی میں گھس کر غائب ہوگیا۔
اس اثناء والد صاحب تیزی سے سائیکل چلاتے ہوئے، ہمارے قریب پہنچ گئے۔ وہ معاملے کو بھانپ چکے تھے، سائیکل سے اترتے ہی اُس آدمی سے متعلق استفسار کیا، تو بہن نے تمام حقیقت بتادی۔ یہ سُن کر وہ ہم پر سخت ناراض ہوئے اور ہمیں ساتھ لے کر گھر کے اندر آئے۔ سائیکل کھڑی کرکے والدہ کو بلایا۔ اُن پر بھی بہت خفا ہوئے کہ انہوں نے ہمارا خیال کیوں نہیں رکھا۔
پھر ہمارے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے والدہ کو آگاہ کیا اور کہا ’’اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کرو کہ ہماری بیٹیاں بال بال بچ گئیں، ورنہ وہ آدمی بالیوں کے لالچ میں بیٹیوں کو نہ جانے کہاں لے جاتا اور اُن کا کیا حشر کرتا۔‘‘ والد صاحب چوں کہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ تھے۔ لہٰذا انہیں شہر کے حالات سے بخوبی آگاہی رہتی تھی۔
انہوں نے والدہ کو بتایا کہ شہر میں ایسے لوگ گھومتے پھر رہے ہیں، جو نہ صرف مال اسباب لوٹ لیتے ہیں، بلکہ چھوٹے بچّوں، خصوصاً بچّیوں کو اغوا کرکے علاقہ غیر لے جاکر بیچ دیتے ہیں۔ والدہ صاحبہ یہ سُن کرسخت خوف زدہ ہوگئیں۔ پھر والد صاحب نے انہیں تسلّی دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری بیٹیوں کی حفاظت دراصل ان ہی بالیوں کی بدولت ہوئی ہے، جو حق حلال کی کمائی کی ہیں اور اُس لٹیرے کے ہاتھ نہ آسکیں۔‘‘
اس واقعے کے بعد والد صاحب پشاور ریڈیو کی ملازمت چھوڑ کر فیملی سمیت دہلی چلے آئے۔ یہاں انہیں برطانوی حکومت کے زیرِنگرانی انڈین ہائی کمیشن میں ملازمت مل گئی۔ کچھ عرصے بعد اُن کا تبادلہ ایران کردیا گیا، چناں چہ فیملی سمیت تہران جا پہنچے۔ یہاں ابھی ڈیڑھ دو سال کا عرصہ ہی گزرا ہوگا کہ 14اگست 1947ء کو برِصغیر کی تقسیم کا اعلان ہوگیا اور دو آزاد ملک پاکستان اور بھارت معرضِ وجود میں آگئے۔ چناں چہ ایران میں برطانوی حکومت کا انڈین ہائی کمیشن بھی بند ہوگیا۔
ہندوستان سے جانے والے عملے میں شامل ملازمین کو مذہبی بنیاد پر اپنے اپنے وطن واپسی کے احکامات جاری کردئیے گئے، ساتھ ہی یہ آپشن دیا گیا کہ اگر وہ اپنے وطن واپس نہیں جانا چاہتے، تو انہیں برطانوی حکومت، برطانیہ کے زیرِ تسلّط کسی اور ملک میں متعین کرسکتی ہے۔
ہم دونوں بہنیں بڑی ہورہی تھیں۔ ہماری تعلیم و تربیت کا مرحلہ شروع ہونے والا تھا۔ اس کے لیے جو ماحول درکار تھا، وہ اسلامی ملک پاکستان ہی میں میسّر آسکتا تھا۔ علاوہ ازیں، والد صاحب کی آبائی زمینیں، جو شیخوپورہ کے علاقے میں تھیں، پاکستان کے حصّے میں آئی تھیں، لہٰذا والد صاحب نے پاکستان جانے کو ترجیح دی۔ تہران چھوڑنے سے پہلے والد صاحب نے پاکستان میں اپنے رشتے داروں کے لیے تحفے تحائف اور والدہ صاحبہ نے خصوصی طور پر سونے کے زیورات خریدے۔
اُس وقت بھارت کے مقابلے میں ایرانی سونا کھرا اور ارزاں تھا۔ پاکستان آنے کے بعد والد صاحب نے اُس وقت کے دارالحکومت کراچی میں رہائش اختیار کی اور کچھ عرصے بعد حکومتِ پاکستان کی طرف سے ایک اعلیٰ سرکاری محکمے سے منسلک ہوگئے۔ کراچی میں رہ کر انہوں نے ہم دونوں بہنوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے ساتھ ہماری عمدہ تربیت کی۔ بڑی بہن کی شادی قریبی رشتے داروں، جب کہ میری شادی دُور کے رشتے داروں میں ہوئی۔ میرے سُسر، ساہیوال کے ایک گائوں کے زمیں دار تھے۔ وہ قیامِ پاکستان سے بہت پہلے ہی سے برطانیہ میں مقیم تھے، جہاں اُن کا خاصابڑاکاروبار تھااور اُن کی عزت و شہرت کراچی تک تھی۔ انہوں نے دوشادیاں کی تھیں۔
پہلی شادی برطانیہ آنے سے پہلے، جس سے ایک بیٹی اور بیٹا پیدا ہوئے۔ دوسری شادی ایک برطانوی خاتون سے کی ،جن سے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ وہ اکثر اپنی پاکستانی فیملی سے ملنے پاکستان جاتے رہتے تھے، اگرچہ اُن کا اکلوتا بیٹا اُن کے ساتھ برطانیہ ہی میں رہتا تھا، لیکن اس کی شادی وہ پاکستان میں کروانا چاہتے تھے۔ چناں چہ اُن کا رشتہ مجھ سے طے ہوگیا۔
شادی کے بعد میں اُن کے ساتھ برطانیہ چلی گئی۔ سُسر صاحب کی چھوٹی انگریز بیٹی، یعنی میری چھوٹی نند نے بڑی خوش دلی سے میرا استقبال کیا۔ برطانیہ میں سُسر کے گھر میں چند ہفتے تو بہت سکون سے گزرے، لیکن جلد ہی گھر کے ماحول میں کشیدگی کا احساس ہونے لگا۔ باپ، بیٹے کے مابین اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے، تو چند ماہ بعد ہی بیٹے نے والد سے علیحدگی اختیار کرکے اپنا کاروبارشروع کرنے کا ارادہ کیا۔
انہیں والد کے ساتھ کاروبار کا تو تجربہ تھا، مگر کاروبارکے لیے سرمائے کی ضرورت تھی۔ وہ اپنے والد سے کسی قسم کی مالی مدد حاصل کرنا نہیں چاہتے تھے، بینک سے قرضہ لینے کا سوچا،مگر اس کے لیے گارنٹی کی ضرورت تھی، لہٰذا میں نے اپنے سونے کے سارے زیورات شوہر کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ’’ زیورات تو میں کم ہی پہنتی ہوں، کاروبار بہت ضروری ہے، لہٰذا آپ یہ زیورات بینک میں گروی رکھوا کر قرضہ حاصل کرلیں اور جب کاروبار چل پڑے، تو قرضہ واپس کرکے زیورات واپس لے لیجیے گا۔‘‘
چناں چہ میرے شوہر نے اللہ کا نام لے کر زیورات بینک میں گروی رکھوادیئے اور قرضے کی رقم سے ایشیائی علاقے میں ایک دکان کرائے پر حاصل کرکے کاروبار کا آغاز کردیا۔ میرے شوہر کے شہر میں لوگوں سے اچھے مراسم اور واقفیت تھی۔ سو، کاروبار کام یابی سے چلنے لگا۔ خوب منافع بھی آنا شروع ہوگیا۔ المختصر یہ کہ تھوڑے ہی عرصے میں ہم اس قابل ہوگئے کہ بینک کا قرضہ واپس کرکے زیورات چھڑوالیے۔ بینک نے لسٹ کے مطابق سارے زیورات کپڑے کی ایک موٹی سیاہ تھیلی میں رکھ کر واپس کردیے۔ گھر آکر میرے شوہر نے تھیلی میرے حوالے کی۔ مَیں اُسی طرح وہ تھیلی بیڈ روم میں پلنگ کی پائینتی کی طرف نیچے قالین پر رکھ کر سوگئی۔
صبح ہماری جب آنکھ کُھلی، تو دیکھا دونوں کمروں مع کچن گھر کا سارا سامان بکھرا پڑا تھا،الماریاں کھلی ہوئی تھیں اور تمام کپڑے الٹے سیدھے پڑے تھے۔ رات کو کسی پہر ہمارے گھر میں چور،چوری کی نیّت سے داخل ہوئے اور ہم تیسرے کمرے میں سوتے رہ گئے۔ ہمیں واردات کا پتا بھی نہیں چلا۔ گھر کی حالت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ چور پورا گھر اچھی طرح کھنگال کر گئے ہیں۔
اس صورتِ حال پر ہم دونوں پریشانی کے عالم میں کفِ افسوس مل رہےتھے اوریہ جائزہ لے رہے تھے کہ چور کیا کیا لے گئے، اچانک میرا دھیان اُن زیورات کی طرف گیا، جو میرے شوہر کل ہی بینک سے چھڑوا کر لائے تھے۔ میں دیوانہ وار پلنگ کی طرف بھاگی اور بے بسی سے پلنگ کی پائینتی کے نیچے ہاتھ سے ٹٹولا، تو میرے زیورات کی وزنی تھیلی جوں کی توں پڑی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا اُسی وقت لاکھ لاکھ شُکر ادا کیا۔ اُس وقت مجھے اپنے والد صاحب کی یہ بات شدّت سے یاد آئی کہ حلال مال کی حفاظت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔
(ایم۔ بی تبسّم، پی ای سی ایچ سوسائٹی، طارق روڈ، کراچی)
سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!
اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔
ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘
٭ گدڑی میں لعل ( ایم۔ رحمٰن لائبریرین، حیات آباد، پشاور) ٭ ٹشو پیپر+ واہ ری مکھی+ اللہ کی اللہ ہی جانے+ واقعہ نمبر2 (سعیدہ جاوید، بلال گنج، لاہور)٭ اے ٹی ایم اور ہم (عشرت جہاں، ٹائون شپ، لاہور)٭ جسے اللہ رکھے (سائیں تاج دین بٹ، عدیل ٹائون، بھائی والا، فیصل آباد)٭ میرے چاند (قاضی عبدالغفار ناگوری، میرپورساکرو)٭ اللہ لوک (مہ وَش خولہ رائو)۔
برائے صفحہ’’متفرق‘‘
٭ ویلٹنائن ڈے، تاریخی پس منظر اور عالمی منظر نامہ (محمّد ریاض علیمی، نیو کراچی، کراچی) ٭ وبا کے دوران دین اور دینی رہنمائوں کا کردار (زمرّد سلطانہ، رحیم پورہ، وزیرآباد) ٭ جنگلات کا تحفّظ اور فروغ (نثار خان جدون، نواں شہر، ایبٹ آباد)٭ اردو لوک ادب، ایک مختصر جائزہ (مدثر اعجاز، لاہور) ٭ خط بنام قائد (سعیدہ جاوید، بلال گنج، لاہور)٭ کرپٹ مافیا کا احتساب (رانا اعجاز حسین چوہان) ٭ فاتح بیت المقدس، سلطان صلاح الدین ایوبی(سیّداشفاق الدین، ابوالحسن اصفہانی روڈ، کراچی)٭ ایک منفرد شجرکاری مہم (اقصیٰ منور ملک، صادق آباد)٭ علاّمہ اقبال کی داہنی آنکھ کم زور تھی (اشفاق نیاز، سیال کوٹ)۔