• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی(تجزیہ مظہر عباس )پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کوسنجیدہ پارٹیوں کی شہرت اورسابق وزیر اعظم مرحوم محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے دستخطوں سے 2006 کے ʼچارٹر آف ڈیموکریسی ہونے کے باوجودابھی بھی ماضی کی بدگمانیوں سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔اس چارٹر آف ڈیموکریسی نےمضبوط جمہوری نظام کیلئے کچھ بنیادی اصول مرتب کئے تھے ،بدقسمتی سے جن کی دونوں پارٹیوں نے بار ہا شدید خلاف ورزی کی جس سے میثاق جمہوریت کو حقیقت سے کہیں زیادہ فرضی داستان سمجھا گیا۔ بہتر ہوتا اگر دونوں پارٹیاں اپنی 7ماہ کی تکلیفوں کو ختم کرتے ہوئے میثاق جمہوریت کو توڑ دیتیں، اس کی بجائے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی طرف سے پیپلز پارٹی کو جاری کردہ "شوکاز نوٹس" پھاڑ دیاجس کے رد عمل میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پیپلز پارٹی کو ’’ خدا حافظ‘‘کہا۔تازہ ترین بریک اپ کی ذمہ داری اب دونوں پارٹیوں کو قبول کرنی چاہیےجس نے ایک بار پھر ظاہر کیا کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان اعتماد کا سخت فقدان ہے ،اس اعتماد کے فقدان سے انہیں ابھی بھی باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ اگر میاں صاحب زرداری کو اپنی وکٹ پر کھیلنے دیتےتو اس صورت میں زرداری صاحب تحریک کو لیڈ کرتے اورنواز شریف اور مریم کو کسی حد تک پیچھے دھکیل دیتے۔انہیں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات اور آخر میں سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی نامزدگی کے معاملات میں ہونے والی ذمہ داریوں کو بھی مشترکہ طور پر قبول کرنا چاہئے۔ یہاں ، پیپلز پارٹی کا معاملہ کمزور ہے لیکن شاید دونوں عدم اعتماد کے اس رشتے کو ختم کرنے کیلئے کسی بہانے کی تلاش میں تھے۔ بیشک یہ بریک اپ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کیلئے راحت کی علامت بن کر آیاتب جبکہ وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی کو حالیہ ضمنی انتخابات میں ایک نشست کے علاوہ ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن چونکہ ہمارا کپتان اپنی ہی مخالفت پیدا کرنے میں خود مختار ہے اس لئے اس وقت وہ اپنے سب سے قابل اعتماد ساتھی جہانگیر خان ترین کے ساتھ صف آرا ہے۔ تعجب کی بات نہیں کہ پاکستان میں کبھی بھی ایک آرام دہ لمحہ کیوں نہیں ہے خصوصا ًمیڈیا کیلئے جو اکثر زیادہ رسیلی چیزیں تلاش کرتے رہتے ہیں اور ہمارے قائدین اور پارٹیاں بھی اس کی فراہمی کے قابل ہیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین حالیہ بریک اب 12 سالوں میں تیسرا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تین میں سے دو موقعوں پر مرکزی کرداریوسف رضا گیلانی کے علاوہ کوئی اور نہیں تھے۔ پہلے 2008 میں ، جب پیپلز پارٹی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور سابق صدر آصف علی زرداری نے میاں صاحب کو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی ، مسلم لیگ (ن) نے اس پیش کش کو اس شرط پر قبول کیا کہ حکومت معزول چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کو ’’ بوربن ڈیلیکریشن ‘‘ کے تحت بحال کرے گی لیکن آصف علی زرداری نے اس معاہدے سے دستبرداری کی اور مسلم لیگ نے اپنے وزرا کو کابینہ سے ہٹادیا، ان دونوں کے مابین تعلقات اتنے کشیدہ ہوگئے کہ میاں صاحب نے 2009 میں ججوں کی بحالی کیلئے ’لانگ مارچ‘ کا اعلان کیا اور پیپلز پارٹی نے پنجاب پر گورنر راج نافذ کردیا، مسٹر چودھری کو آخر کار بحال کردیا گیا۔بعد میں میاں صاحب مشہور ‘میموگیٹ’ کیس میں سپریم کورٹ گئے اور آخر کار گیلانی کو توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ نے نااہل کردیا تاہم ، پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی پانچ سال مدت پوری کی جو1947 کے بعد پہلی سویلین حکومت تھی جواپنی مدت پوری کرتے ہوئے 2013 میں مسلم لیگ (ن) کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پرامن منتقلی کا باعث بنی جسے زرداری صاحب نے "آر اوز الیکشن" کہنے کے بعد کچھ تحفظات کے ساتھ قبول کرلیا۔ دونوں کے مابین تعلقات کسی حد تک اس وقت بہتر ہوئے جب ʼعمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب کے چار انتخابی حلقوں کو دوبارہ کھولنے کیلئے لانگ مارچ ʼکا اعلان کیا جس پر عمران خان کے خیال میں دھاندلی ہوئی تھی۔ اس نے ایک بدصورت صورتحال پیدا کردی جب پی ٹی آئی کے حلیف ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے حامیوں کے خلاف پولیس کارروائی میں متعدد افراد ہلاک ہوگئے۔پیپلز پارٹی کی قیادت میں اپوزیشن نے حکومت کی حمایت کی اور منتخب حکومت کو گرانے کے اقدام کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو بھی سمجھ لیا۔ میاں صاحب نے بدلے میں سابق صدر آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کا سیاسی پختگی ظاہر کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ جب حکومت نے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے میلیٹنٹ ونگزکی فہرست پیش کی تو کا لعدم گروپوں کے شدت پسندوں کیخلاف 2013 کے آخر میں شروع ہونے والے ʼکراچی آپریشن میں لیاری گینگ وار اور ایم کیو ایم کے عسکریت پسندوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔2015میں جب سندھ رینجرز نے سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوستوں میں سے ایک کو گرفتار کیا تو زرداری صاحب نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور براہ راست شریف برادران پر ʼپیٹھ پر وار کرنے کا الزام لگایا یہاں تک کہ میاں صاحب حیران رہ گئے اور انہوں نے اپنے وزیر داخلہ چوہدری سے استفسار کیا۔یہ کارروائی دونوں پارٹیوں کے مابین دوسرے ’ہنی مون‘ کو ختم کرنے پر ختم ہوئی، یہ بریک اپ جاری رہا اور مسلم لیگ ن اس وقت بھی پی پی پی کی حمایت حاصل نہیں کرسکی جب میاں صاحب 2016میں ’پاناما لیک‘ کے نتیجے میںسپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دیے گئے ، اس کی بجائے زرداری نے مسلم لیگ (ن) کے لئے مسائل پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 2018 کے الیکشن سے کچھ مہینوں قبل مسلم لیگ (ن) میں منی بغاوت کی وجہ سے اس کی بلوچستان حکومت گر گئی جس نے بلوچستان عوامی پارٹی ، بی اے پی کو جنم دیا۔2018 کے انتخابات میں ان پیشرفتوں کی وجہ سے عمران خان اہم فائدہ اٹھانے والے نکلے اور بی اے پی ، ایم کیو ایم (پاکستان) اور مسلم لیگ (ق) کی حمایت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔لیکن جیسے ہی عمران نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں پر سختی کی تو دونوں پارٹیوں کے پاس 2002 کے انتخابات کے بعد ہونے والے اتحاد کی طرح اور کوئی آپشن نہ بچی جب جنرل مشرف نے بینظیر اور میاں نواز شریف دونوں کو انتخابی سیاست سے دور رکھا، پچھلے ’ہنی مون‘ کی طرح اس بار بھی وہ 26 مارچ کو شیڈول ‘لانگ مارچ ،’ سے پہلے استعفیٰ کے بارے میں اختلافات پیدا ہونےکے بعد الگ ہوگئے کیونکہ پیپلز پارٹی اس کو آخری حربے کے طور پر رکھنا چاہتی تھی،سینیٹ انتخابی تنازعہ نے پہلے سے ہی کشیدہ صورتحال میں ایندھن کا کردار ادا کیااور زرداری کے اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے اجلاس میں تقریر کے دوران میاں صاحب پر طنز کرنے کے بعد ‘تحریر دیوار پر لگی ہوئی تھی ،’ کہ دونوں ساتھ نہیں چل سکتے ۔ لہذا مجھ جیسے کسی کیلئے ان کی مختصر ʼتکلیف کی شراکت داری کا ایک اور انجام دیکھنا حیرت کی کوئی بات نہیں تھا۔ لہذا ، پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان تیسرا ʼہنی مون دورانیہ اب ختم ہوا۔اب جبکہ پی ٹی آئی کی قسمت اس وقت ان کے اپنے ہی آدمی جہانگیر خان ترین کے ہاتھ میں ہے تو پی پی پی اور ن لیگ گورنمنٹ بنا سکتے ہیں،حزب اختلاف کی تحریک اب بے چینی کے ساتھ عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان ناچاکی کے نتائج کا انتظار کررہی ہے،عمران خان اور جہانگیر ترین کے رد عمل کا اگلا اقدام دیکھنا اور آئندہ مرکز اور پنجاب میں بجٹ اجلاس کا دیکھنا دلچسب ہوگاکہ اصل میں پک کیا رہا ہے؟۔

تازہ ترین