• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سنیچر ترکی میں فتح قسطنطنیہ کی پانچ سو اڑسٹھ ویں سالگرہ منائی گئی۔ کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے فتح کی سالگرہ کے موقع پر صدر رجب طیب ایردوان نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے شہر کو فتح کرنے والے عثمانی بادشاہ سلطان محمد فاتح اور ان کے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ترک قوم عثمانی فوج کے ہر سپاہی کی شکر گزار ہے جنھوں نے شہر کو فتح کرکے اسے ترکوں کا ابدی شہر بنادیا۔ انہوںنے گزشتہ ایک ہزار سال سے لڑنے والے غازیوں اور شہیدوں کو یاد کیا جن کی قربانیوں اور شجاعت کی وجہ سے یہ زمینیں ان کا وطن بن گئیں۔ شہر میں فتح کی سالگرہ سادگی سے منائی گئی اور ایک لیزر شو پر اکتفا کیا گیا۔ اس کے علاوہ کچھ مہینے پہلے میوزیم سے دوبارہ مسجد میں تبدیل ہونے والی آیا صوفیہ میں سورۃ فتح کی تلاوت کی گئی۔اسے کچھ لوگ اسلام کے احیا کی طرف ایک واضح اشارہ سمجھ رہے ہیں جبکہ کئی قوم پرست اسے صدیوں پرانی ترک قومی شناخت کی بازیافت کی علامت قرار دےرہے ہیں جو سیکولر ترکی کے شانہ بشانہ چل سکتی ہے۔ کچھ ماہ پہلے جب میوزیم کو دوبارہ مسجد کی حیثیت سے بحال کیا گیا تو یورپی ممالک نے احتجاج کیا جسے ترک حکومت نے مسترد کردیا۔ بحیثیت مرکزی کلیسا آیا صوفیہ کو بازنطینی دور حکومت میں انتہائی اہم مقام حاصل تھا۔اسی لئے فتح کے فوراً بعد جب سلطان محمد شہر میں داخل ہوئے تو انہوںنے سب سے پہلے آیا صوفیہ کا دورہ کرکے اس کے گنبد سے پورے شہر کا نظارہ کیا۔ اس کے بعد شاید اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا جسے اتاترک نے اقتدار میں آتے ہی میوزیم میں بدل دیا۔

جس عہد میں عثمانیوں نے شہر کو فتح کیا اس وقت کے مروجہ یورپی رواج کے مطابق فاتحین تین روز تک قتل وغارتگری اور لوٹ مار کرتے تھے اور تمام مذہبی عبادتگاہیں ان کی ملکیت بن جاتی تھیں جیسا کہ خود مخالف عیسائی گروپوں نے ماضی میں شہر پر قبضے کے دوران کیا تھا۔ یہاں تک کہ صلیبیوں کے ایک گروپ نے جب لگ بھگ دو صدی قبل شہر پر قبضہ کیا تو انھوں نے عبادت گاہوں کو لوٹنے کے علاوہ راہباؤں تک کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ مگر سلطان محمد فاتح نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ سب سے پہلے انھوں نے امراء کی خواتین کو نہ صرف رہا کردیا بلکہ حفظ مراتب انہیں دولت سے بھی نوازا۔ جب سلطان کو پتہ چلا کہ گرفتارشدہ گان میں مقتول بادشاہ کے نو وزیر اور بحری فوج کے سربراہ لوکاس نوتراس بھی شامل ہیں تو انہوںنے انہیں رہا کردیا۔ فتح کے فوراً بعد سلطان نے شہر کے دوسرے بڑے گرجا گھر کی حفاظت کیلئے فوجی دستے روانہ کئے اور کلیسا کے نئے سربراہ کے حق میں اپنے پیشرؤں کو حاصل تمام اعزازات اور اختیارات بحال کئے اور انہیں ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے کر دینی معاملات میں مکمل آزادی کی تحریری ضمانت دیدی۔ شہر میں دیگر سینکڑوں کلیساؤں کو بھی سرکاری تحفظ فراہم کیا گیا۔ شہر میں داخل ہوتے ہی سلطان نے اپنے کئی سو سپاہیوں کو شہر میں پھیلے گرجا گھروں اور عیسائی مذہبی رہنماؤں اور امراء کی حفاظت کیلئے تعینات کردیا۔ سلطان نے شہر سے نقل مکانی کرنے والوں کو واپس بلانے کیلئے بہت زور لگایا جس کے نتیجے میں پانچ ہزار سے زائد خاندان واپس آئے جن میں امراء کے علاوہ تاجر اور کاریگر شامل تھے جس سے کاروبار اور تعمیر و ترقی کو کافی فروغ حاصل ہوا۔

جب 29 مئی 1453 کو اکیس سالہ عثمانی بادشاہ سلطان محمد نے شہر فتح کرنے کی ٹھانی تو کئی لوگوں نے اسے ناممکن قرار دیا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ یہ شہر ایک ہزار پچاس سال سے زیادہ عرصہ تک رومن بازنطینی سلطنت کا دل تھا جہاں سے وہ پوری مملکت پر حکومت چلارہے تھے۔ دوم، شہر کو بیس میل سے زیادہ طویل ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی اونچی فصیلوں نے گھیر رکھا تھا۔ سوم شہر کو نہ صرف تربیت یافتہ سپاہ کی ایک اچھی تعدادمیسر تھی بلکہ انہیں ایک طاقتور بحری بیڑے کی معاونت بھی حاصل تھی۔ اس کے علاوہ بادشاہ کو ہمیشہ ہمسایہ مسیحی ریاستوں سے بوقت ضرورت مدد ملنے کی امید رہتی تھی۔ ایک فاتح کی حیثیت سے جب سلطان محمد شہر میں داخل ہوئے تو ایک ہزار پچاس سال سے زائد عرصہ تک چلنے والی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوا مگر قسطنطنیہ اس سے بہتر آباد ہوا۔ سلطان کی وفات تک آبادی میں چار گنا اضافہ ہوا تھا اور صرف ایک صدی بعد اس کی آبادی پانچ لاکھ تک پہنچ گئی تھی جن میں تمام مذاہب، عقیدے، نسلوں اور قومیّتوں کے لوگ امن و امان، ترقی اور خوشحالی کے ساتھ ایک ساتھ رہنے لگے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین