• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پی ایم ایل (ن) کی حکومت نے دلیرانہ قدم اٹھاتے ہوئے جنرل (ر) مشرف پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانے کا وعدہ، جو اُنہوں نے انتخابات کے دوران کیا تھا، پورا کردیا ہے۔ وزیراعظم نے اس ہفتے کے آغاز میں پارلیمینٹ میں اس فیصلے کا اعلان کیا تھا اور اب اُن کی وزارت ِ داخلہ ایک رپورٹ تیار کر رہی ہے جس کے تحت جنرل مشرف کے خلاف ایف آئی آرکٹوائی جائے گی۔
اس کیس میں کچھ باتیں الجھی ہوئی ہیں۔ 1999ء میں نواز حکومت کاتختہ الٹنے کی پاداش میں پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ نہیں چل سکتا کیونکہ ان کے اقدامات کی سپریم کورٹ ، جس کے بنچ میں موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان بھی شامل تھے، نے پی سی او کے تحت توثیق کر دی تھی۔ اس کے بعد ”مشرف پارلیمینٹ “ نے سترہویں ترمیم کے ذریعے اس کی منظوری دے دی تھی۔ سابقہ پارلیمینٹ کی منظور کردہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج صاحبان کا تو تحفظ کرتی ہے لیکن مشرف کے شب خون پر خاموش ہے۔ دراصل وہ تمام سیاست دان، جنہوں نے جنرل مشرف کے اقدام کی حمایت کی تھی، آج اپنے سابقہ ”باس اور مہربان“ کے خلاف آرٹیکل چھ کے اطلاق کے لئے شور مچارہے ہیں۔
ایک اور بات اہم ہے کہ جولائی 2011ء میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے معاملے کو تبدیل کر دیا۔ اس نے 12اکتوبر 1999ء کے اقدامات کی بجائے جنرل مشرف کو صرف تین نومبر 2007ء کے اقدام، جب ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو نظر بند کر دیا گیا تھا، پر مورد ِ الزام ٹھہرایا کہ سپریم کورٹ تین نومبر کے اقدام میں شریک دیگر افراد وزیراعظم، چاروں صوبائی گورنرز، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، مسلح افواج کے چیفس، وائس چیف آف آرمی اسٹاف اور کور کمانڈرز کو مورد ِ الزام نہیں ٹھہراتی۔ اس کا مطلب ہے کہ پی ایم ایل (ن) کی حکومت صرف جنرل مشرف پر تین نومبر کے اقدام، نہ کہ 1999ء کے شب خون کے حوالے سے مقدمہ درج کرائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ جن جج حضرات نے 1999ء کے اقدام کی توثیق کی تھی اور جنہوں نے 2007ء کے اقدام کو جائز قرار دیا تھا ، کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ اسی طرح 1999ء اور2007ء کے اقدامات میں شریک اور معاون سول اور فوجی افسران سے بھی کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ اس صورتحال کو صرف ایک شخص ، جب کہ اسی جرم میں بہت سے دیگر افراد کے ملوث ہونے کا بھی ثبوت موجود ہے، کو سزا دی جاسکتی ہے ۔ کئی حلقے اسے جائز قرار نہیں دیں گے۔
پی ایم ایل (ن) کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے دوٹوک فیصلے کے بعد اس کے پاس اب کوئی آپشن موجود نہیں رہا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ کا یہ حکم کہ دیگر سول اور دفاعی افسران کو چھوڑتے ہوئے صرف جنرل مشرف کے خلاف کارروائی کی جائے، اس بات کا تاثر واضح کرتا ہے کہ سپریم کورٹ صرف جنرل مشرف کو ہی سزا دینا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ سول حکومت غداری کا مقدمہ اس لئے قائم کررہی ہے کہ اسے عدالت کی طرف سے ایسا کرنے کا حکم ملا ہے۔ کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ مشرف صاحب کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا ہے؟
نہیں ، ایسی بات نہیں ہے۔ بہت سی باتیں یہ سمجھنے پر مجبور کرتی ہیں کہ یہ ایک ایسا ٹرائل ہونے جارہا ہے جس کا شاید ہی کوئی فیصلہ سنایا جا سکے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ سابق آرمی چیف کو پھانسی کی سزا سنائی جائے۔ بہت سی مثالیں سامنے ہیں کہ اس نے اپنے سابقہ چیفس کو توہین عدالت جیسے مقدمات میں بھی ملوث کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس ضمن میں جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کی مثال سامنے ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فوج نے سول حکومتوں کو کبھی اجازت نہیں دی ہے کہ وہ اس کے ریٹائرڈ افسران کو کرپشن یا اسی طرح کے دیگر جرائم کے الزامات لگاکر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔ تیسری بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام میں جنرل مشرف کو نامزد کرنا اور پھر اُسی درخواست گزار کی طرف سے اُن کا نام خارج کرنے کی استدعاکرنا بہت کچھ سمجھا جاتا ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ موجود چیف جسٹس آف پاکستان کی ریٹائرمنٹ سے بھی جنرل مشرف کے خلاف چلنے والا مقدمہ متاثر ہوگا۔ پانچویں، یہ کہ خلیجی حکمران ، جنہوں نے 2000ء میں نواز شریف کو پرویز مشرف سے بچانے کے لئے کردار ادا کیا تھا، اب وہ پرویز مشرف کو نواز شریف سے بچانے کے لئے ویسا ہی کردار ادا کریں گے۔ یہ بات طے ہے کہ نواز شریف اس ملک کی خواہشات کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ اس ملک کے ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں ۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ آئی ایس آئی پر 1990ء کے انتخابات پر اثرانداز ہونے کا الزام لگا اور یہ کیس تقریباً دو عشروں تک التوا کا شکار رہا۔ جب آخرکار اس کا فیصلہ ہوا تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑا؟ اسی طرح جنرل مشرف ٹرائل بھی شروع ہو گا ، پھر سرد خانے میں چلا جائے گا، اسی دوران اُنہیں کسی نہ کسی بہانے سے ملک چھوڑ جانے کی اجازت بھی مل جائے گی۔ اس طرح وہ زندگی کے باقی دن، جیسے تمام آمر حکمران کرتے ہیں، کسی اور ملک میں گزار لیں گے۔
تازہ ترین