• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ وفاقی حکومت کا تیسرا بجٹ چوتھے وزیر خزانہ شوکت ترین نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔ بجٹ برائے مالیاتی سال 2021-22ء کا حجم 8487ارب روپے ہے جس میں مجموعی خسارہ 3990ارب اوروصولیوں کا ہدف 5829ارب رکھاگیا ہے۔ سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 215ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں، ترقی کا ہدف 4.8فیصدمقرر کیا گیا ہے، بجٹ کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنروں کی پنشن میں 10فیصد اضافہ اور کم سے کم اجرت 20 ہزار کردی گئی ہے۔ چھوٹی اور الیکٹرک کاریں، ٹریکٹر، موبائل فون، زرعی آلات، خوردنی تیل، گھی، فولاد سستے ہوگئے جبکہ چینی، لگژری اشیاء، ٹائر، بیٹریاں،موبائل فونز ایس ایم ایس، موبائل فون کالز، مہنگی کردی گئیں، آن لائن خریداری پر بھی سیلز ٹیکس کی مد میں 11ارب کا ٹیکس عائدکیا گیا ہے، درآمدی میک اپ، خوراک، شیمپو، پرفیوم مہنگے ہوگئے ان اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح میں اضافے سے 11ارب کی وصولی ہوگی، کیپٹل گین ٹیکس میں 2.5فیصد کمی کر دی گئی، 12وِدہولڈنگ ٹیکس ختم کردیئے گئے ہیں، پھلوں کے رس پرفیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم اور آکسیجن سلنڈر پر سیلز ٹیکس، کتابوں، اسپیشل ٹیکنالوجی زونز پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے، ہرشہری گھرانے کو کاروبار کیلئے 5لاکھ بلا سود قرضہ فراہم کیا جائے گا اور کم آمدن ہائوسنگ اسکیم کے تحت 20لاکھ کے سستے قرضے ملیں گے، ہر خاندان کیلئے صحت کارڈ جاری ہوگا۔ بجٹ میں عالمی وباء کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے کورونا فنڈ میں 100ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔بجٹ خسارے کا تخمینہ6.3 فیصد لگایا گیا ہے،پرائمری خسارے کا ہدف 0.7فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ پٹرولیم لیوی میں 160ارب روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے اور ہدف 610 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جو کہ رواں برس 450ارب روپے تھا اس طرح پٹرولیم لیوی میں 36فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ تقریر میں ملک کی معاشی مشکلات کا سبب سابقہ دور حکومت کی پالیسیوں خصوصاً بلاسوچے سمجھے قرضے لینے کو قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت نے حقیقت پسندانہ پالیسیاں اختیار کرکے ملک کو معاشی بحران سے نکال لیا ہے اور اب خوشحالی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔تاہم عام آدمی کے لیے بجٹ کے حوالے سے اصل اہمیت اعداد و شمار ، دعووں اور وعدوں کی نہیں، ان اثرات و نتائج کی ہوتی ہے جو بجٹ کے نفاذ سے ظہور میں آتے ہیں۔ روزگار کے مواقع بڑھیں، مہنگائی کم ہو، زندگی کی سہولتوں میں بہتری آئے، تعلیم اور علاج معالجہ آسان ہو، اہلیت کی بنیاد پر ترقی کے مواقع امیر و غریب سب کو یکساں طور پر فراہم کیے جائیں تو ایسا بجٹ عوام کی نگاہ میں اچھا ہوگا اور نتائج اس کے برعکس ہوں تو ناپسندیدہ قرار پائے گا۔ نئے وفاقی بجٹ کو بھی عام آدمی اسی کسوٹی پر جانچے گا۔تاہم تاجروں اور صنعت کاروں کے نمائندوں کی طرف سے بجٹ پر عمومی اظہار اطمینان بہرکیف اس امر کا مظہر ہے کہ وزیر خزانہ کا پیش کردہ بجٹ معاشی ترقی کے اچھے امکانات کا حامل ہے۔ ممتاز کاروباری شخصیات نے بجٹ کو انقلابی تو نہیں مگر متوازن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے صنعتی سر گرمیوں کے فروغ کیلئے بہتر فیصلے کئے ہیں، بجٹ سے کیپٹل مارکیٹ پر مثبت اثرات مرتب ہوںگے، آئی ٹی سیکٹر ترقی کرے گا، تھرڈ پارٹی آڈٹ کا اعلان بڑا اقدام ہے۔ مگر ان کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ سوال ضرور جواب طلب ہے کہ حکومت ریونیو کلیکشن 24فیصد زائد مانگ رہی ہے تو سوال یہ ہے کہ1230ارب سے زائد اضافی ریونیو آئے گا کہاں سے؟ایک بہت لائق توجہ بات یہ ہے کہ بالعموم دوران سال آنے والے منی بجٹ سالانہ میزانیہ کو بے معنی بنادیتے ہیں، لہٰذا کوشش کی جانی چاہیے کہ اب ایسا نہ ہو۔

تازہ ترین