• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی بجٹ میں پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں بھاری اضافے کی تجویز پر ملک بھر میں جس تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا اس کے حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ نے گزشتہ روز منعقدہ پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ پٹرولیم لیوی کو چار پانچ روپے فی لیٹر سے بڑھا کر بیس روپے فی لیٹر تک لے جانا اگرچہ ان کے پیش نظر ہے تاکہ اس مد میں 160ارب روپے کی اضافی رقم قومی خزانے کو فراہم ہو سکے لیکن یہ تجویز عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے مشروط ہے۔ تیل کے عالمی نرخوں میں کمی کی امید کا سبب وزیر خزانہ کے بقول ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے خاتمے کے امکانات ہیں۔ جبکہ تیل کے معاملے میں ایک مالی سہولت وزیر خزانہ کے مطابق سعودی عرب سے تیل کی قیمت کی ادائیگی تاخیر سے کرنے کے سمجھوتے کی بحالی ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پٹرولیم لیوی میں اضافے کے لئے ہمیں ایران امریکہ معاہدے کا انتظار کرنا ہوگا۔ گویا تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی تو اس کا پورا فائدہ پاکستانی صارفین تک منتقل نہیں ہوگا بلکہ حکومت پٹرولیم لیوی کی موجودہ شرح میں تین سو فیصد تک کا اضافہ کرکے اپنی آمدنی بڑھائے گی۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا جو فائدہ عوام کو ملنا چاہئے، وہ ان کو نہیں ملے گا۔ یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ کہ امریکہ ایران معاملات اگر درست نہیں ہوتے یا ان میں تاخیر ہوتی ہے تو حکومت کو یہ اضافی آمدنی کیسے حاصل ہوگی اور اس کی بنیاد پر کی گئی منصوبہ بندی کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے گا۔ جہاں تک سعودی عرب سے سمجھوتے کی بات ہے تو اس پر نئے مالی سال کے آغاز ہی سے عمل شروع ہو جائے تب بھی یہ رقم بہرکیف ملک پر قرض ہی ہوگی جو کسی طور قابلِ اطمینان بات نہیں۔ پھر خود وزیر خزانہ ہی کے مطابق تیل کی مقدار اور انتظامی شرائط کے بارے میں ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تفصیلات سے پہلے نہیں کہا جا سکتا کہ معاملے کی حتمی شکل کیا ہوگی اور بجٹ تجاویز پر کس طرح اثرا نداز ہوگی۔ موبائل فون کالز اور پیغامات پر ٹیکس کی تجاویز بھی قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بجٹ کا حصہ تھیں لیکن وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ یہ تجاویز واپس لے لی گئی ہیں۔ عام صارف کے لئے یہ یقیناً ایک اچھی خبر ہے لیکن ان مجوزہ محصولات سے جو خطیر رقم حکومت کو حاصل ہونا تھی اور اس سے جو کام لئے جانے تھے ان کے لئے اب کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا، اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ بجلی کے نرخوں میں چالیس پچاس فیصد اور انکم ٹیکس کی شرح میں سو فیصد اضافے کے آئی ایم ایف کے مطالبات کو وزیر خزانہ کے مطابق مسترد کردیا گیا ہے جو بلاشبہ بالکل درست فیصلہ ہے اور عوام کے مفاد میں حکومت کو یہی کرنا چاہئے تھا۔ قومی خزانے کے لئے مزید وسائل کی فراہمی کا عوام دوست طریقہ صرف یہ ہے کہ موجودہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بجائے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کے بجائے ان کی چوری روک کر تمام صارفین سے وصولی یقینی بنائی جائے۔ اس حکمت عملی سے بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی کرکے بھی مجموعی آمدنی میں قابل لحاظ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ وزیر خزانہ کا یہ دعویٰ کہ ان کے پیش کردہ بجٹ کا اصل مقصد کم آمدنی والے طبقات کی حالت بہتر بنانا ہے، یقیناً بہت خوش آئند ہے۔ تاہم اس کی عملی شکل اس کے سوا کچھ نہیں کہ عام آدمی کی قوت خرید میں اضافہ ہو اور روزگار، رہائش، علاج معالجہ اور تعلیم سمیت زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں تک اس کی رسائی ممکن اور آسان بنائی جائے۔ خدا کرے کہ حکومت کی معاشی ٹیم اس خواب کو حقیقت بنانے میں کامیاب ہو اور معاشی بہتری کے ثمرات دو چار فیصد دولت مندوں تک محدود رہنے کے بجائے عوام الناس تک بھی پوری طرح پہنچ سکیں۔

تازہ ترین