ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاکر اپوزیشن جماعتوں نے، جن کو پچھلے تین سال میں حکومت کو’ ’ٹف ٹائم‘‘ دینے میں ناکامیاں زیادہ اور کامیابیاں کم ملی ہیں ایک بڑا رسک لیا ہے۔ یہ حال ہی میں قائم ہونے والی شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی قربت کا بھی امتحان ہے۔ اس پر ووٹنگ جمعہ کو ہوگی۔ کئی اہم فیصلے عام طور پر اسی دن ہوتے ہیں۔
اس سے پہلے قومی اسمبلی میں حکومت کو ایک بار شکست کا سامنا کرنا پڑا جب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد کی نشست پر سینٹ کے الیکشن میں حکمران اتحاد کے امیدوار مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو شکست دے کر وزیراعظم عمران خان کو حیران کر دیا۔ بغاوت یا بے وفائی اندر سے ہو تو مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
کچھ ایسا ہی ہوا تھا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ حکمران جماعت کے کن لوگوں نے اپنے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا، خان صاحب کوئی مثال نہ قائم کر سکے ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ،کیونکہ حکومت جا سکتی تھی۔
دیکھنا صرف یہ ہے کہ کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے اور وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی میں دوریاں بڑھ رہی ہیں؟ عدم اعتماد کی کامیابی شہباز اور بلاول کو قریب لا سکتی ہے، ناکامی پارلیمنٹ کے اندر اتحاد کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ گیلانی صاحب کی جیت کے بعد بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں شکست کے بعد گیلانی صاحب کو ہی قائد حزب اختلاف بنانا اور وہ بھی حکمران اتحاد بلوچستان عوامی پارٹی کے ووٹ سے بلاول بھٹو یا آصف زرداری کا غلط فیصلہ تھا۔ ایک تو ایک ہی امیدوار کو دو بارہ کھڑا کرنا اور دوسرا اس یقین دہانی کے بعد کہ قائد حزب اختلاف مسلم لیگ سے ہوگا؟ پی پی پی نے اپوزیشن اتحاد کو نقصان پہنچایا۔ بہتر ہوتا یہ سیٹ مسلم لیگ کو دی جاتی۔ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک لانے میں شاید اپوزیشن نے جلد بازی کی ہے۔
اب میں یہ کہہ نہیں سکتا کہ کون ایم این اے کس کو سرپرائز دے سکتا ہے مگر بظاہر عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان کئی ماہ سے چلنے والی کشیدگی اور معاملات خاموشی اور خوش اسلوبی سے طے پا رہے ہیں گو کہ پی ٹی آئی میں ترین صاحب کے سب سے بڑے سیاسی مخالف شاہ محمود قریشی بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ترین صاحب کو کوئی رعایت نہیں دی جا رہی۔
یہ عدم اعتماد کی تحریک شہباز شریف کے اس بیانیہ کا بھی امتحان ہوگا جس میں سڑکوں کی سیاست کے بجائے ایوانوں میں حکومت کو ’ٹف ٹائم‘ دے کر مشکل میں ڈالنا زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے یہاں پر کامیابی کے بعد دوسرا ہدف ’پنجاب‘ ہو۔ اس وقت ایک بار پھر میاں نواز شریف اور مریم نواز نے خاموشی اختیار کرلی ہے اور وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اپوزیشن کو ایوان کے اندر کس حد تک کامیابی مل سکتی ہے۔
ایسے موقع پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے دورہ کراچی کے بعد اب وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا وہاں جا کر سپریم کورٹ سے مداخلت کا مطالبہ کرنا سندھ حکومت کیخلاف ایک جوابی حملہ ہو سکتا ہے۔ مگر اس طرح کی باتیں کر کے پی ٹی آئی کو نہ شہری سندھ میں کوئی خاص سیاسی فائدہ ہونے جا رہا ہے نہ ہی دیہی سندھ میں۔
ایک سیاسی جماعت کے طور پر عمران خان کو جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ نہ ان کے ساتھ نادر لغاری چل سکے، نہ ممتاز بھٹو اور نہ ہی لیاقت جتوئی۔ اب اگر گزارہ حلیم عادل شیخ پر ہی کرنا ہے تو پھر بڑی سیاسی کامیابی ملنا مشکل ہے۔
جب 14ایم این اے اور 22 ایم پی ایز کے ساتھ آپ کوئی بڑا سیاسی کام شہروں میں نہ کر سکے تو خالی ہاتھ اندرون سندھ تبدیلی کیسے لائیں گے؟ رہ گئی بات پارلیمنٹ سے باہر مولانا فضل الرحمان کی تو ان کو اب تک پسپائی کا ہی سامنا ہے۔ 2018 کے الیکشن کی شکست کا بدلہ وہ اب تک خان صاحب سے نہ اسمبلی کے اندر لے پائے ہیں (کیونکہ وہ خود ہی باہر ہیں) اور نہ ہی باہر۔ الیکشن کے فوراً بعد انہوں نے مشورہ ضرور دیا تھا مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو حلف نہ اٹھانے کا مگر دونوں نے اس وقت انکار کر دیا۔
اپوزیشن جماعتوں کے پاس سینیٹ میں واضح اکثریت تھی اور وہاں وہ ’ٹف ٹائم‘ دے بھی رہی تھیں مگر پھر اچانک چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی گئی۔
ووٹوں کی تعداد کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تحریک باآسانی پاس ہو سکتی تھی مگر اپوزیشن کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اہم بات یہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں میں سے کسی ایک نے بھی ان سینیٹرز کے خلاف کارروائی نہیں کی۔اگر آپ سچ جاننا چاہتے ہیں تو سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم بنانے میں ان کی سب سے زیادہ مدد خود اپوزیشن نے کی۔
2018 کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے اندر بغاوت، بلوچستان عوامی پارٹی کا بننا، یہ سب عوامل پی ٹی آئی کو الیکشن کے بعد حکومت بنانے میں مدد گار ثابت ہوئے۔ اب اگر سابق صدر آصف زرداری نے میاں صاحب سے 2015 میں ڈاکٹر عاصم حسین اور ان کے دوستوں کی گرفتاری کا بدلہ لیا تو پھر وہ عمران کو ’سلیکٹڈ‘ بنانے میں مددگار تو ثابت ہوئے۔ اب اس میں ’غیبی امداد‘ تو صرف مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم (پاکستان) کی صورت میں دی گئی۔ پہلے ان کی نشستیں کم کر کے اور پھر اتحادی بنا کر۔
ایسے میں 11 جماعتی اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ جو اب 8 جماعتوں کا رہ گیا ہے اس کا حشر ایسا ہی ہونا تھا جیسا ہوا۔ ایک ڈیڈ لائن کے بعد دوسری ڈیڈ لائن اور دوسری کے بعد تیسری اور آخر میں پی ڈی ایم ’ڈیڈ‘۔ اب اس میں پھر جان ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر پی پی پی اور اے این پی کے بغیر۔ دیکھیں اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔
البتہ انفرادی طور پر دونوں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو شکست دے کر نفسیاتی برتری تو قائم کی ہوئی ہے اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں کامیابی اپوزیشن کے بیانیہ میں جان ڈال سکتی ہے کہ 2023 کے الیکشن تک لڑائی اندر ہی لڑیں تاکہ جمہوریت کا پہیہ چلتا رہے۔
شکست کی صورت میں اپوزیشن کی ناکامیوں کا سلسلہ کامیابی کے ساتھ جاری رہے گا۔ آخر میں وزیراعظم سے ایک گزارش۔ کل 17جون ہے، آپ نے سانحہ ماڈل ٹائون کے شہیدوں کے لواحقین سے کچھ وعدہ کیا تھا ۔ کیا اس پر بھی ’یوٹرن‘ لے لیا ہے؟ انصاف دلائیں جناب۔