غربت ،کائنات کے کشکول میں گرا سب سے زیادہ کھنکنے والا سکّہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ کسی غریب کی سوچوں کے کوہِ قاف پر کبھی خوش حالی کی پریاں نہیں اُترتیں۔ بے حِسی اور خود غرضی حد سے بڑھ جائے تو حاکمِ وقت ایسا سماج ترتیب دیتا ہے، جس میں انسانوں کو تو مقفّل کر دیا جاتا ہے ، لیکن پاگل کُتّوں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور پھر لوگ امن کا خواب سنسان رستوں کی طرح دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ مفلسی ایک لفظ ہی نہیں، یہ روگ کی تفہیم ہے۔ غربت ،مُردہ زباں کا وہ زندہ لفظ ہے، جو مفلس کو نیم مُردہ کر دیتا ہے۔ یہ غلامی کے اُس رویّے کا نام ہے، جس میں دیا روشن کرنا بغاوت تصوّر کیا جاتا ہے۔
جس عہد میں غربت کا مداوا صرف موت ہو جہاں ظلم اور فاقوں کا راج ہو، وہاں سماج اور قبرستان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ایسے دَور کو اپنے عُمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلاش ہوتی ہے۔ انسان تو انسانیت سے بنتا ہے ،چہروں پر آدمی لکھ دینے سے کوئی انسان نہیں بن جاتا ۔دِلوں میں مال و زر کا لالچ رویّوں میں سفّاکی اور بے حِسی آ جائے ،تو وجود سے کفن اور کافور کی بُو آنے لگتی ہے، چہرے کتبے بن جاتے ہیں اور نہ جانے کیوں برکھا سے نکھرے اور دُھلے کتبے بھی اُداس لگتے ہیں۔ فانی دنیا کی داستان سُنا رہے ہوتے ہیں۔
جس طرح درویش صفت لوگوں اور صحرائی پودوں پر خزاں کا رنگ ہی جمتا ہے، بالکل اسی طرح غربت کے زردصحرا میں تنہائی کا رنگ ہی نکھرتا ہے۔لالچی انسان دوسروں کا حق غصب کرتے کرتے ذہنی طور پر چیونٹی بن جاتا ہے اور چیونٹی کے گھر میں اناج اس قدر بھر جاتا ہے کہ اکثر اوقات اُس کے اپنے رہنے کی جگہ بھی نہیں بچتی۔ یہ لالچ اور بھوک کا خوف ہی تو ہے، جس نے بے شمار انسانوں کو غربت کے جہنم میں دھکیل دیا ہے اور سہمے ہوئے خالی شکم کی آگ کا دُکھ وہی محسوس کر سکتا ہے،جس نے بھوک و افلاس کی ماری فاقہ زدہ ماں کی لوری سُنی ہو اور جس کی ماں نے خود کھلونے بیچنے والے کی گلی سے آتی آواز کو سُن کر بچّوں کو اونچی آواز سے باتوں میں اُلجھایا ہو۔
ندیم عرف نومی میرے بچپن کا دوست تھا، ہم ایک ہی گائوں ،ایک ہی گلی میں رہتے اور ایک ہی دن پیدا ہوئے تھے۔ ہم دونوں گرچہ ہم عُمر تھے ،مگر پھر بھی اُس کا بچپن ،میرے بچپن سے بہت مختصر تھا۔ سُنا ہے مفلسی ،بچپن کھا جاتی ہے اور چھوٹی عُمر ہی میں جوانی کی ذمّےداریاں دے جاتی ہے۔ ہم تینوں اکثر اکٹھے رہتے تھے۔ مَیں، وہ اور ایک پاگل سی چُپ۔ نومی کا باپ کُمہار تھا ،اُس کا چھوٹا سا گھر مٹّی کے برتنوں اور سہمے ہوئے فاقوں سے بھرا رہتا تھا۔ غربت کا فلسفہ بھی بڑا عجیب ہے۔
یہ اُسی کو سمجھ آتا ہے ،جو شکم کی آگ کے عذاب اور نظر انداز کیے جانے والے دُکھ کو جانتا ہے۔ مفلسی اور بیماری، سگی بہنیں ہیں اوریہ ہمیشہ اپنے بھائی’ ’ضمیر‘ ‘کے ساتھ رہتی ہیں۔ جب تک اُن کا بھائی جاگتا رہے ،یہ اپنا مسکن نہیں بدلتیں ،مگر جب بھائی سو جائے تو یہ گھر سے بھاگ کر چاندی کی دیوار کے پیچھے چُھپ جاتی ہیں۔ نومی اور اُس کے گھر والوں کو مَیں نے ہمیشہ خستہ حال اور فاقہ زدہ ہی دیکھا ۔اُس کا باپ کرمو کمہار ،اُس کی ماں ، بہن اور نومی چاروں ہی محنت مزدوری کرتے تھے ،مگر علاج معالجے کا ڈاکو اُن سے سب کچھ چھین لے جاتا۔
نومی کو جوانی اور تپ دِق اکٹھے ملے تھے۔ غربت اور بیماری کی وجہ سے نومی کی بہن کا چہرہ پیلا تھا، مگر اُس کے ہاتھ ’’پیلے‘‘ نہ ہو سکے تھے۔گائوں میں بجلی آ چکی تھی، مگر اُس کے گھر میں ابھی تک چراغوں کا چمکیلا اندھیرا تھا۔ گائوں کی اکثر شادیوں میں اُس کی بہن کو مَیں نے نم آنکھوں سے گاتے دیکھا تھا۔ وہ گائوں سے اُٹھتی ہر ڈولی بڑی حسرت سے دیکھا کرتی تھی، اُسے شاید ادراک تھا کہ بنا ہم سفر ، زندگی کا سفر ایک مشقّت ہی ہے۔
نومی مجھ سے بڑی محبّت کرتا تھا۔ ہم نوکری کی تلاش میں کئی بار شہر بھی گئے ،مگر ہر بار ناکام لوٹے ۔ ایک بار شہر سے گائوں آتے ہوئے مَیں نے نومی سے ایک بڑا عجیب سوال کیا اور پھر اس کا جواب میری ساری نیندیں کھا گیا۔کھیت کے ساتھ سر سبز پگڈنڈی پر بیٹھ کر مَیں نے نومی سے پوچھا ’’نومی یار! سفر میں راستہ اہم ہوتا ہے یا منزل؟ ‘‘نومی نے پیار سے میری طرف دیکھااور اپنی خالی جیب پر ہاتھ رکھ کر بولا ’’میرے یار! سفر میں نہ راستہ اہم ہوتا ہے، نہ منزل ، اہم صرف’’ ہم سفر ‘‘ہوتا ہے۔‘‘کہنے لگا، ’’جنگ لمبی ہو جائے تو نسلیں اُجاڑ دیتی ہے۔
میرے یار !مَیں اور میرا خاندان کئی نسلوں سے غربت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس استحصال نے ہمارے اندر ایک مزاحمت پیدا کردی ہے ،کبھی کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے، جب مصالحت کے طفیل ہوا مان جاتی ہے،مگر دِیا نہیں مانتا۔ زندگی نشیب و فراز، اندھیرا اُجالا، خزاں بہار، خوشی غمی کا امتزاج ہے، مگر میری زندگی کے کینوس پر صرف اُداسی ہی کی تصویر ہے۔ ذرایع اور دولت کی غیر مساوی تقسیم اہلِ زمین کا دوش ہے۔مجھے اپنی بہن کے پیلے ہاتھوں کے پیلے نہ ہونے کا بہت دُکھ ہے، جب آپ غربت کی وجہ سے دھتکار دئیے جاتے ہیں ،تو اپنے اندرآپ ہی کوئی خاموشی سے مر جاتا ہے۔ میری بہن میں غربت کے علاوہ کوئی عیب نہیں ۔‘‘
پھر ایک دن ہم شام کو کام سے فارغ ہو کر کنویں کے پاس ملے، تو کہنے لگا،’’ مجھے اس بات کا رنج ہے کہ لوگ میری اور میرے خاندان کی عزت نہیں کرتے ۔ کیاہم اپنی مرضی سے غریب پیداہوئے ہیں؟ اگر کوئی شخص معذور یا غریب پیدا ہوتا ہے، تو اس میں اُس شخص کا کیا قصور؟لوگ اُسے وہ مقام کیوں نہیں دیتے،جو اپنے جیسے دوسرے لوگوں کو دیتے ہیں۔
میرا دادا کہا کرتا تھا’’ایک انسان کے دوسرے انسان پر تین حقوق ہیں ۔پہلا حق یہ ہے کہ اُس کی پیدائش پر خوشی منائی جائے، دوسرا یہ کہ اُس کی جان، مال اور ناموس کی حفاظت کی جائے کہ وہ عزت والا، ربّ کا نائب اور مسجودِ ملائک ہے اور تیسرا یہ کہ اُس سے محبّت کی جائے۔‘‘مگر ہم غریبوں کی تو نہ عزّت کی جاتی ہے، نہ ہمیں کوئی دوست رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی محبّت کرتا ہے‘‘یہ کہہ کر نومی افسردہ ہوگیا اور اسے کھانسی شروع ہوگئی۔
’’یار نومی! تُو با قاعدگی سے دوا کیوں نہیں کھاتا؟ اب مَیں تیرا ایک بہانہ نہیں سُنوں گا، بس اگلے مہینے ہم شہر جارہے ہیں، تُجھے ڈاکٹر کو دکھانے‘‘ ’’یار! کیا کروں گا مَیں زیادہ جی کر؟ اگر تُو واقعی میرے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے تو، میرے بعد میرے گھر والوں کا خیال رکھنا۔‘‘اس نے مایوسی سے کہا۔ ’’اچھا بس بس! زیادہ ڈائیلاگ نہ بول ، ابھی تُو نے بہن کو رخصت کرنا ہےاور تیرے اپنے سر بھی سہرا سجنا ہے اور…‘‘ اس سے پہلے مَیں کچھ کہتا ،نومی نے کہا’’چل اُٹھ یار! بس گھر چلتے ہیں ، مَیں آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘اگلے روز مَیں کام سے واپس لوٹا تو ، چاچے کر موکا پیغام آیا’’ پُتر !فوراً پہنچ نومی سخت بیمار ہے۔‘‘ مَیں دوڑ کر نومی کے گھر پہنچا تو چاچا کرمو کہہ رہا تھا ’’پُتّر! تُو فکر نہ کر، مَیں شہر جا کر تیرا علاج کرواؤں گا، یہ مکان بھی بیچ دوںگا، چوہدری بھی مجھے تھوڑا بہت اُدھار دے دے گا۔
نمبردار بھی اچھا آدمی ہے ،وہ بھی کچھ نہ کچھ مدد کردے گا ،جو میں اُسے قسطوں میں لوٹاتا رہوں گا۔‘‘نومی کی بہن کی سِسکیاں بلند ہونے لگی تھیں ،وہ بھائی کا سر گود میں رکھے، بار بار اپنے دوپٹے سے آنسو پونچھ رہی تھی۔نومی خلائوں میں دیکھ رہا تھا’’وہ مجھے لینے آ رہے ہیں، مگر اس بار موت کے فرشتے کو بڑی مایوسی ہو گی کہ وہ ایک مَر ے ہوئے شخص کی جان نکالے گا۔‘‘نومی کی ماں چلّائی ’’پُتّر! تجھے میری قسم چُپ ہو جا۔ اللہ تجھے میری حیاتی بھی لگا دے ۔‘‘ نومی نے مجھے دیکھ کر اُٹھنے کی کوشش کی، مگر اب وہ شدید کھانسی کے ساتھ خون بھی تھوک رہا تھا۔
مَیں نے کہا ’’نومی !اپنے آپ کو سنبھال، ہم سب کو تیری ضرورت ہے، بس ہمّت نہیں ہارنا میرے یار۔‘‘نومی نے میری طرف دیکھا اُس کے ماتھے پر شکنوں کا جال سابچھ گیا تھا ۔کہنے لگا’’ میرے دوست! بھوک کی کوئی مملکت، قومیت اور سرحد نہیں ہوتی، اس کا تو کوئی مذہب بھی نہیں ہوتا، بھوک صرف بھوک ہوتی ہے۔روٹی کی جنگ پہلے بچپن، پھر جوانی کھاجاتی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اُس نے اُٹھنے کی کوشش کی، مگر کمزوری کی وجہ سے اُٹھ نہ سکا۔نومی کی آنکھوں میں اشکوں کا ایک بہتا دریا تھا اور چند لمحوں بعد…وہ ہمیشہ کے لیے پُر سکون نیند سو گیا۔
اُس کی قبر پر مٹّی ڈالتے ہوئے ،اُس کے آخری الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے’’ میرے دوست! میری آخری خواہش پوری کر سکتے ہو؟‘‘ ’’کیا…؟؟‘‘ مَیں نے سِسکتے ہوئے پوچھا تھا۔’’مَیں ،مرنے سے پہلے جینا چاہتا ہوں‘‘۔