مقبوضہ کشمیرمیں حالیہ ڈرون حملوںنے چند برس قبل کے پلوامہ حملوں کی یاد تازہ کردی ہے جب ان حملوں کی آڑ میں پاکستان کے خلاف جارحیت کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔میڈیا اطلاعات کے مطابق بھارت کے زیرانتظام مقبوضہ کشمیر کا جموں ائیر بیس اتوارکے روز دو زور دار دھماکوں سے گونج اٹھا، ایک دھماکے سے بھارتی فضائیہ کے اڈے کی عمارت کی چھت اڑ گئی جبکہ دوسرا دھماکہ کھلی جگہ پر ہوا، پراسرار دھماکوں سے پورا علاقہ لرز اٹھا اور ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا،کہا جارہا ہے کہ ان حملوں کے وقت ائیر فورس اسٹیشن پر اعلیٰ سطحی اجلاس جاری تھا،مقامی حریت پسندوں کی جانب سے اس حوالے سے خاموشی اختیار کی گئی لیکن مقبوضہ کشمیر پولیس چیف کا بیان میڈیا کی زینت ضرور بنا ہے جس میں انہوں نے مذکورہ حملے کو دہشت گردانہ اقدام قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی فضائیہ کے ایئربیس کو ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے،بھارتی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ حملے کے اگلے روز سوموار کو بھی ایک عسکری اڈے پر ڈرون سے بم گرانے کی کوشش کوناکام بنادیا گیا،ڈرون حملوں کے بعدمقبوضہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر سیکورٹی ہائی الرٹ کرتے ہوئے حفاظتی اقدامات کو مزید سخت کردیا گیا ہے۔ فی الحال بھارتی حکام یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ پراسرار ڈرون کہاں سے اڑائے گئے ، تاہم جموں کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس دل باغ سنگھ نے حملوں کے تانے بانے بناکسی ثبوت کے پاکستان سے ملاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ڈرون حملوں میں پاکستان میں موجود کچھ شدت پسند کالعدم تنظیمیں ملوث ہوسکتی ہیں، پولیس کے بے بنیادبیان کو جواز بناتے ہوئے بھارتی میڈیانے پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا شروع کردیاہے۔ اگر بھارتی حکام کے دعوے کو درست تسلیم کیا جائے تو مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک ِ آزادی کی تاریخ میں جدید ڈرون حملوں کا یہ پہلا واقعہ ہے، اگر حملوں کی ٹائمنگ کا جائزہ لیا جائے تو مقبوضہ وادی اور خطے کی تیزی سے بدلتی صورتحال میں اسکے اثرات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جموں ایئربیس پر حملے ایسے وقت کیے گئے ہیں جب تین دن قبل ہی بھارتی وزیراعظم نریندرامودی نے بھارت نواز کشمیری لیڈران کی کُل جماعتی کانفرنس اجلاس طلب کیا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں الیکشن اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے حمایت حاصل کی جاسکے۔دوسری طرف ڈرون حملوں سے چند دن قبل پاکستان میں لاہور میں ایک کالعدم تنظیم کے امیر کے گھر کے قریب بھی حملہ کیا گیا ہے جسے بھارت حالیہ ڈرون حملوں کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے، جوہر ٹاؤن لاہور میں کار بم دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکار سمیت تین افراد جاں بحق اور کم از کم چوبیس لوگ زخمی ہوئے ہیں،چونکہ کالعدم تنظیم کے سربراہ پہلے ہی جیل میں قید ہیں، اسلئے مذکورہ حملے کے پس پردہ مقاصد کے بارے میں فل الحال وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، تاہم پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے ملک کے مختلف علاقوں سے حملے میں ملوث عناصر کو گرفتار کرلیا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مطابق بم دھماکے میں ملوث بین الاقوامی اور مقامی کرداروں کی شناخت بھی کر لی گئی ہے۔علاقائی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا رواں برس گیارہ ستمبر تک مکمل ہوجائے گا، اس حوالے سے خطے میں غیریقینی صورتحال بدستور قائم ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ ایک مرتبہ پھر نوے کی دہائی کی تاریخ دہراتے ہوئے افغانستان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے واپس جانا چاہتا ہے،میں اپنا یہ خدشہ مختلف مواقع پر ظاہر کرچکا ہوں کہ اگر امریکہ جلدبازی میں افغانستان سے چلا جاتا ہے تو نہ صرف وہاں خانہ جنگی کا خدشہ ہے بلکہ اسکے منفی اثرات پاکستان سمیت پڑوسی ممالک پر بھی پڑنے کا اندیشہ ہے، بھارت کا بارڈر اگرچہ افغانستان سے براہ راست ملحقہ نہیں ہے لیکن تاریخی طور پر مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی میں تیزی افغانستان سے سوویت افواج کے انخلا کے بعد ہوئی ، روس کی افغانستان میں شکست نے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو اپنے بنیادی حقوق کے حصول کیلئے ایک نیا جوش و جذبہ عطا کیا تھا، آج بھی افغانستان کی صورتحال پاکستان اور بھارت سمیت پڑوسی ممالک پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔مجھے یاد ہے کہ چند برس قبل بھارت میں پلوامہ حملے کی آڑ میں پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کا کھلم کھلا اظہار کیا جانے لگا تھا،ایسے نازک حالات میں مجھے کمبھ میلے میں شرکت کیلئے بھارت جانے کا موقع ملا ،میں نے دارالحکومت نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی، آنجہانی وزیر خارجہ آنجہانی سشما سوراج اور امور خارجہ کے وزیر مملکت سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ سمیت دیگر حکومتی، غیرسرکاری، میڈیا اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے ملاقاتوں میں واضح کیا تھاکہ پاکستان کا کوئی ادارہ پلوامہ حملوں میں ملوث نہیں، ہم بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ کسی بھی ملک کی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف استعمال کی جائے،بھارت کو سمجھنا چاہیے کہ کچھ شدت پسند غیر ریاستی عناصر دونوں ممالک میں روز اول سے سرگرم ہیں جنکا مقصد اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے نفرت کے ایجنڈے کو پروان چڑھانا ہے۔میں آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہوں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین دیرپاامن دونوں ممالک میں بسنے والے عوام کے مفاد میں ہے،طاقت کے ذریعے کوئی تنازع حل نہیں کیا جاسکتا، دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت دوطرفہ تنازعات کے حل کیلئے ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں۔بھارتی ایئر بیس پر ڈرون حملہ ہو یا پاکستانی سرزمین پر کار بم دھماکہ، ہمیں الزام تراشی سے گریز کرتے ہوئے ایسی تمام دہشت گردانہ کارروائیوں کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے اوردہشت گردی میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ آج اگر سپرپاور امریکہ افغانستان میں بیس سالہ جنگ کے بعد قبضہ چھوڑنے پر آمادہ ہوگیا ہے تو بھارت کوبھی آخرکار مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کودوبارہ بحال کرکے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)