• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کا مستقبل تاحال ایسے چیلنج کی صورت دنیا کے سامنے موجود ہے جس میں اعلیٰ انسانی اقدار سے لے کر علاقائی و عالمی امن اور اقوامِ متحدہ کی ساکھ سمیت بہت کچھ دائو پر لگا محسوس ہوتا ہے۔ ایک طرف چار عشروں سے یکے بعد دیگرے دو سپر طاقتوں کی مسلح مداخلت و تسلط اور داخلی خانہ جنگی کی صورت میں آتش و آہن کی تباہ کاری سے دوچار ہونے والے افغان باشندے منتظر ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں پھر سے آباد ہو کر سکون سے زندگی گزارنے کے قابل ہوں۔ دوسری طرف خطّے کے ممالک ہیں جو اپنے پڑوس میں طویل عرصے کی بدامنی کے باعث تنائو کے شکار ہیں۔ تیسری طرف پاکستان جیسا ملک ہے جو افغانستان کے حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ چوتھی طرف وہ طاقتیں ہیں جو افغانستان میں برپا قیامت خیزی اور ہمسایوں پر اس کے منفی اثرات میں اپنا مفاد دیکھتی ہیں جبکہ کرۂ ارض کی کیفیت ایسی ہے کہ اس کا امن افغانستان میں سلگتے آتش فشاں کے خوفناک اثرات شاید مزید برداشت نہ کر سکے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے درست نشاندہی کی کہ افغانستان کا مستقبل چین اور پاکستان دونوں کیلئے اہم چیلنج ہے یہ دونوں ممالک خطے کے امن سے خصوصی دلچسپی رکھنے والے دیگر ملکوں کے ساتھ پچھلے عرصے میں متعدد کانفرنسوں کی صورت میں حالات بہتر بنانے کی تدابیر پر غور کرتے رہے ہیں کیونکہ ماضی کے اس تجربے کا اعادہ پاکستان اور چین سمیت کسی بھی امن دوست ملک کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتا جس کا سامنا سوویت یونین کے اچانک انخلا اور اس وقت کے حالات سے امریکہ کے لاتعلقی ظاہر کرنے کے باعث افغان عوام اور خطے کے ملکوں کو کرنا پڑا۔ چینی وزیر خارجہ کا پاکستان کے ساتھ مل کر مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنے، قومی مفاہمت کے حصول اور پائیدار امن کیلئے بین الافغان مذاکرات کی حمایت کے موقف پر مبنی مذکورہ بیان پاک چین تعلقات کے 70سال مکمل ہونے کے حوالے سے تقریب میں وڈیو لنک سے خطاب میں سامنے آیا۔ ایسے منظر نامے میں کہ واشنگٹن افغانستان سے 90فیصد فوجیں نکال چکا ہے اور طالبان اور کابل حکومت کی رسہ کشی ’’قلعہ نو‘‘ اور ’’بادِ غیس‘‘ سمیت وسیع علاقے پر طالبان کے کنٹرول اور سرکاری فوجوں کے ہتھیار ڈالنے کی صورت میں ظاہر ہورہی ہے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ مشورہ افغانستان کے تمام حلقوں کے لئے قابلِ توجہ ہونا چاہئے کہ امریکہ امن مذاکرات میں بیٹھے یا نہ بیٹھے، طالبان سمیت افغانوں کو بیٹھنا چاہئے اور تشدد کی بجائے امن کا راستہ اپنانا چاہئے۔ پاکستانی وزیر خارجہ اور آرمی چیف کے پچھلے عرصے کے دوران مختلف ممالک کے دوروں اور اہم رابطوں کا مقصد بھی یہی ہے کہ افغان امن عمل کے حوالے سے اب تک جو کوششیں کی گئی ہیں انہیں بےاثر نہ ہونے دیا جائے۔ بدھ کے روز بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سرکاری دورے پر قطر پہنچنے کے بعد اہم ملاقاتوں میں افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کیا اور دونوں ملکوں نے اس باب میں ایک دوسرے کی کاوشوں کو سراہا۔ بدھ ہی کے روز ایران کا دارالحکومت تہران افغان حکومت اور طالبان کے مذاکرات کا مرکز بناجن میں قطر میں کئی ماہ پہلے ہونے والی بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا جبکہ بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم جے شنکر کے تہران پہنچنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ درپیش صورتحال میں نئی دہلی بھی بین الافغان مذاکرات کی اہمیت محسوس کررہا ہے۔ اس باب میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا یہ مشورہ صائب ہے کہ فریقین ملک کے مستقبل کے لئے مل کر سخت فیصلے کریں۔ معاملات کی کیفیت بھی متقاضی ہے کہ افغان تنازع طے کرنے میں تاخیر نہ کی جائے۔ بصورت دیگر حالات کے سنگین تر ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

تازہ ترین