• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے وقتی سیاسی و ذاتی مفادات کی خاطر تاریخ کو مسّخ کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ پچھلے دنوں وزیرِ امورِ کشمیر علی امین گنڈا پور نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں جو نازیبا بیانات دیے ہیں۔ انہیں سن کر ہر اس پاکستانی کو دُکھ ہوا ہے جو اپنی تاریخ سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہے۔ وہ شخص جس نے پاکستان کو آئین دیا، اسکے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، بھارت سے 5ہزار مربع میل کا علاقہ اور 90ہزار جنگی قیدی واپس لئے، پاکستان کو مسلم دنیا کا لیڈر بنایا۔ اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی خاطر امریکی سامراج سے ٹکّر لے کر پھانسی کا پھندا چوما، اسے ایک ایسی جماعت کے کھلنڈرے وزیر کی طرف سے ناروا تنقید کا نشانہ بنانا انتہائی افسوسناک ہے جس کے کریڈٹ میں ابھی تک تباہ کن مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی، مخالفین کی کردار کشی، معاشی تباہی، اظہارِ رائے پر بدترین پابندیوں، ترقی کے جھوٹے پروپیگنڈے، کرپشن اور یوٹرن کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ٹوٹے ہوئے ملک کو پھر سے اپنے پائوں پر کھڑا کیا جبکہ وزیرِ موصوف کی حکومت نے تقریباً 6جی ڈی پی کی شرح سے ترقی کرتے ہوئے ملک کا کباڑہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ’’ادھر ہم، ادھر تم‘‘ کے جس نعرے کا ذکر انہوں نے کیا ہے۔ اس خبر کی سرخی کے خالق معروف صحافی اطہر عباس مرحوم خود بھی کئی مرتبہ اس سرخی کی وضاحت کر چکے تھے۔ اسی طرح روزنامہ جنگ میں چند دن پہلے شائع ہونے والے کالم ’’5جولائی 1977کیوں ہوا‘‘ میں جنرل ضیاء کے بیٹے اعجاز الحق بھی اسی طرح تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ جس میں انہوں نے 5جولائی کے مارشل لا کی ساری ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو پر ڈال کر جنرل ضیاء کو ’’معصوم‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ المناک ترین باب ہے جس کے پس منظر اور حالات و واقعات پر صرف پاکستان ہی نہیں، بیرونِ ملک بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے اور تو اور پاکستان قومی اتحاد کے لیڈروں نوابزادہ نصراللہ خان، پروفیسر عبدالغفور، سردار عبدالقیوم اور اصغر خان کے انٹرویوز اور کتب آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں جس میں انہوں نے 5جولائی کے مارشل لاکو بلا جواز قرار دیتے ہوئے اسے جنرل ضیاء کی ہوسِ اقتدار کی وجہ بتا یا تھا۔ کیونکہ جس رات جنرل ضیاء نے اقتدار پر شب خون مارا تھا۔ اس سے اگلے دن پاکستان قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے درمیان نئے انتخابات کے سمجھوتے پر دستخط ہونے والے تھے۔ اور 5جولائی کے اخبارات اس خبر کے ساتھ شائع ہوئے کہ آج پی این اے اور پیپلز پارٹی کے درمیان سمجھوتے پر دستخط ہو جائیں گے۔ اب اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ انتخابی دھاندلی کے نام پر شروع ہوکر نظامِ مصطفیٰ میں تبدیل ہونے والی پی این اے کی تحریک پاکستان کے خلاف ایک عالمی سازش تھی جس کا بھٹو نے برملا اظہار اپنی 28اپریل 1977کی قومی اسمبلی کی تقریر میں کیا تھا۔کیونکہ سامراج بھٹو کو آزاد خارجہ پالیسی، چین کے ساتھ دوستی، ویت نام، قبرص، فلسطین اور کشمیر پر موقف اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر سزا دینا چاہتا تھا۔ جنرل ضیاء کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے تقرر اور قومی اتحاد کی تحریک کے دوران کردار نے یہ بھی ثابت کردیا تھا کہ اس ساری سازش میں ان کا بھی کردار تھا۔ کوثر نیازی اپنی کتاب ’’اور لائن کٹ گئی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء ایک جونیئر آرمی آفیسر تھے لیکن ان کے کمانڈ انچیف مقر ر ہونے سے چھ ماہ پہلے امریکی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی کرنل بلاٹی نے ان کے کمانڈر انچیف بننے کی پیش گوئی کردی تھی جس پر اس وقت کسی نے اعتبار نہیں کیا تھا۔ سپریم کورٹ میں اپنے بیان میں بھٹو نے مارشل لا لگانے کے لئے جنرل ضیاء کی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا (جس کی تائید بعد میں نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر عبدالغفور نے بھی کی) کہ جنرل ضیاء بلوچستان میں جاری اس وقت کی فوجی کارروائی اور حیدر آباد سازش کیس ختم کرنے کے مخالف تھے جس کی ڈیمانڈ پی این اے کے لیڈر کر رہے تھے تاکہ ڈیڈ لاک برقرار رہے۔ حالانکہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جنرل ضیاء نے پی این اے کے دونوں مطالبات مان لئے تھے ۔ بقول اعجازالحق جنرل ضیاء صرف منصفانہ انتخابات کروانا چاہتے تھے جس کے لئے انہوں نے 18اکتوبر 1977کی تاریخ بھی مقرر کر دی تھی اور خانہ کعبہ میں حلفاً بیان بھی دیا تھا۔ لیکن ان کے الفاظ کے مطابق ’’نجانے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو کیا ہوا کہ انہوں نے اچانک نعرہ لگایا کہ پہلے احتساب پھر انتخاب اور الیکشن ملتوی کرنے کا مطالبہ کردیا‘‘ فی الحقیقت یہی فقرہ سارے مضمون کا لُبّ لباب ہے کہ جنرل ضیاء نے اپنی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے انتخابات ملتوی کردئیے کیونکہ ان مجوزہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی فتح یقینی تھی۔ جبکہ جنرل ضیاء اپنے ’’مثبت نتائج‘‘ کے حصول تک انتخابات کروانے کے لئے تیار نہ تھے جو ان کی زندگی میں ممکن نہ ہو سکے۔ اس مارشل لا کی جو قیمت پاکستان نے ادا کی وہ اب تاریخ کا حصہ ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر تاریخ کو مسخ نہ کیا جائے۔

تازہ ترین