• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ عوام کیا ہے

یہ تو سنتے رہے ہیں کہ بچوں کو گولی ٹافی کا لالچ دے کر انگلی لگا لیا جاتا ہے مگر کیا خبر تھی کہ عوام کو بھی اسی طرح ورغلایا جائے گا اور مطلب نکالنے کے بعد ان کو ویران گلیوں میں بےآسرا چھوڑ دیا جائے گا یا افلاس کی چھری سے ذبح کرکے کھیتوں میں ان کی لاش پھینک دی جائے گی۔ بڑے بڑے فورمز پر مسائلِ اغیار حل کرنے والے اپنے لوگوں کی بھی خبر لیں کہ بجٹ کے بعد انہیں لگاتار تین بار کتنا بڑا ’’ریلیف‘‘ دیا گیا ہے۔ اپنی زمین کھود کر خزانے نکالنے کا عمل ابتدا ہی سے ہر دور حکومت میں شرع کردیا گیا ہوتا تو غیروں کے دروازوں پر درد ناک آوازیں نکالنے کی نوبت ہی نہ آتی، ہر ظلم پر کسی کی مثال دینے سے ظلم اور بڑھتا ہے زخم مزید درد دیتے ہیں۔ جب سے قائد کی آنکھ بند ہوئی عوام پر سارے دروازے بند ہوتے گئے۔ تیلی تیل مہنگا کرتے ہیں کہ اس طرح بدنامی کم اور مہنگائی بڑھ جاتی ہے کہ عوام کی ایک ٹانگ تیل سے بھی بندھی ہوئی ہے، ہاں یہاں کے امرا بیرون وطن سکھی ہیں کہ یہاں وہ مٹی کو ہاتھ لگائیں سونا بن جائے۔کہتے ہیں فرانس میں ایک کیک سے انقلاب آگیا تھا یہاں دہکتے انگاروں کے سیک سے بھی کچھ نہیں، پہلے آتا تھا اپنی حالت پر ترس اب دل سے جگر تک نہیں آتا، ہم بھی قلم کو کیا دیں پرانی اکنیاں دونیاں چمکا رہے ہیں حالانکہ وہ اب کھوٹی ہو چکی ہیں، تقدیر عوام کیا بتائیں کہ شمشیر و سناں آخر طائوس و رباب اول ۔

٭٭٭٭

یونہی کوئی مل گیا تھا

بس یونہی روزِ اول کے بعد کوئی مل گیا تھا، پھر وہ ہر جنم میں ملتا رہا، اور کہتا رہا کَڈ میرے پیسے، اب ہمارے سارے خانے خالی ہی نہیں خراب بھی ہیں، مگر کہیں شہنایاں بجتی ہیں اور اکثریت کے آنگن میں ماتم، تکلیف معاف کہ بات فارسی میں ہے مگر ترجمہ بات بتا دے گا۔ ؎

سر گزشتِ مَن چہ پُرسی مَن چہ گویم سرگزشت

موئے سر از پاگزشت و خارِ پا از سرگزشت

(مجھ پر جو گزری اسے کیا پوچھتے ہو کہ میں کیا بیان کروں، ہاں اتنا تو بتا سکتا ہوں کہ سر کے بال، پائوں سے گزر گئے اور پائوں کے کانٹے سر سے گزر گئے) لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر اس سے ہمارے لیکھ نہ بدل سکے۔ ہاں ایک ہمیں ایسا بھی ملا کہ اس نے ہمیں گھر بنا کر دیا اس میں آباد بھی کردیا، پھر ہم اس کا احسان اس کی روح کو قسطوں میں اذیت دے کر اب بھی چکا رہے ہیں، دہن زخم کی صورت اور اس سے ابلتے قہقہے یہی ہمارا ذوقِ مزاح بھی اور مفلس کی آن بھی۔ ویسے ہمارے پاس منزل بھی ہے راہ بھی، لوٹ مار کا یہ عالم کہ لیسکو کے سب ڈویژنوں میں بیٹھے ایس ڈی اوز لائن آفیسرز غریب عوام میں چھپے ٹائوٹوں کے ذریعے لاکھوں مانگتے ہیں، لوگ چندہ جمع کرکے پیش کرتے ہیں اور لیسکو کے قرار دیئے گئے کام قانونی ہو جاتے ہیں ہماری زبان نہ کھلوائی جائے ورنہ ہم کینال پوائنٹ فیز ٹو عامر ٹائون سب ڈویژن کی کہانی بیان کردیں گے۔ غریب صارفین ایس ڈی او، اس کے لائن آفیسراور ٹائوٹ کے ڈھائی لاکھ رشوت طلب کرنے کا احوال بھی سنا دیںگے، کیا لیسکو چیف اب بھی خاموش رہیں گے۔

٭٭٭٭

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کیا کیا گل کھلائے

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹے کا تھیلا 150، گھی90، چینی17روپے کلو مہنگی کرنے کی منظوری دے دی، یہ یوٹیلٹی اسٹورز بند کردیں تو کم از کم دل تو نہ جلے، اور امیر کا دیا کیسے جلے۔ یہ اقتصادی بے رابطہ کمیٹی کے لگتا ہے روابط بہت تگڑے ہیں، اگر یوٹیلٹی اسٹورز پر مہنگائی کا یہ عالم ہے تو کھلی مارکیٹ میں تو انی مچ جائے گی، لوگوں کو کورونا سے ڈرانے والے یہ بھی سوچیں کہ خالی پیٹ کی امیونٹی کیا خاک مقابلہ کرے گی وائرس کا، اقتصادی رابطہ کمیٹی کو تو کوئی مسائل درپیش نہیں، بھلا وہ کیوں نہ مہنگائی کے ظالمانہ فیصلے کی منظوری دیتی۔ بھرے پھولے ہوئے پیٹ اور اربوں سے کھیلنے والے غریب آدمی کے لئے کیا پیکیج دیں گے، وہ تو اپنی امیری کے کاخ امراء سے نہیں نکلتے، اقبالؒ نے کہا تھا ؎

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دو

علامہ بندۂ مفلس کے اوقات جانتے تھے، آج انجان خط غربت تلے دبے ہوئے لوگوں کے لئے مہنگائی نامہ مرتب کرتے ہیں۔ کب صبح جنم لے گی کب رات فنا ہوگی، آخر کوئی حد ہوتی ہے، کیا یہ تجاوز از حدود کیس نہیں؟ مگر ایف آئی آر کون کاٹے، کہ عقوبت خانے بھی ان کے دار و رسن بھی ان کا، فیصلے ہوتے ہیں سزا نہیں ملتی، کیا یہ ملک ضمانتوں، سفارشوں کا متحمل ہوسکتا ہے، نظام بدلنا ہوگا، دولت کی تقسیم درست کرنا ہوگی، نااہلوں بے خبر امیر کبیر ذمہ داران سے نجات ہی میں نجات، ورنہ مرگِ مفاجات۔

٭٭٭٭

کیا اب کبھی سحر نہ ہوگی؟

...o کے الیکٹرک نے ماہانہ بنیادوں پر بجلی مہنگی کرنے کی تیار کرلی۔

باقی کمپنیاں بھی پیچھے اس امام دے اللہ اکبر۔

...o وزیر اعلیٰ بزدار: نئی گاڑیاں دے دیں، اب لاہور میں گندگی نظر نہ آئے۔

لاہور سے مراد پورا لاہور ہونا چاہئے، کیا پرائیویٹ اسکیمیں بھارت میں ہیں جو ان تک کچرا اٹھانے والی گاڑیوں اور دیگر سرکاری اداروں کی رسائی نہیں؟

...o برطانوی عدالت: برطانیہ پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کا حق رکھتا ہے۔

یہ استعماری سوچ کیا اب بھی زندہ ہے، 80لاکھ کشمیریوں کو بھارتی پنجرے سے آزاد کرنے کا انسانی حق بھی برطانیہ رکھتا ہے۔

...oتجزیہ کار: پاکستان جرم ضعیفی کی سزا بھگت رہا ہے۔

پاکستان کو ضعیف کرنے والوں کو سزا دی جاتی تو مرگ مفاجات کی نوبت نہ آتی۔ اب ہم کیسے پاکستان کو حمام کہیں جہاں کالے دھن میں ملبوس برہنہ لوگ برسراقتدار چلے آ رہے ہیں، یہ ظالمانہ موروثیت کب ختم ہوگی؟

٭٭٭٭

تازہ ترین