• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بری کی ڈائری۔۔۔خورشید حمید
آزاد کشمیر کے انتخابات میں ایک دن ہی رہ گیا ہے جبکہ ہر طرف سے کامیابی کے بلند و بانگ دعوے کئے جار ہے ہیں - ہرووٹ مانگنے والا اپنے امیدوار کی شان بیان کرتے ہوئے اس کی تحریک آزادی کشمیر کےلئے کئی گئی یا حتیٰ کہ نہ کی گئی کاوشوں کو موضوع بحث بنا کر یہ ثابت کر رہا ہے کہ ووٹ محض اسی کے امیدوار کا حق ہے ۔کچھ لوگ کشمیر کی تحریک آزادی کو موضوع بحث بنا رہے ہیں کہ فلاں پارٹی جیت گئی تو تحریک آزادی کشمیر کو فائدہ ہو گا حالانکہ ان کے عمل سے یہ ہرگز نہیں لگتا کہ کسی بھی امیدوار کو تحریک آزادی کشمیر یا ریاست کی وحدت و اتحاد سے کوئی غرض ہے جبکہ ایک دانشور کا قول ہے کہ” انتخابات سے تحریک آزادی کشمیر کو توفائدہ نہیں ہوگامگر کچھ لوگوں کی تحریک کے نام پر روٹیاں لگ جائیں گی لیکن کشمیر آزاد نہیں ہوگا“۔ ایسے میں جہاں آزادکشمیر اور پاکستان میں مہاجرین کی بارہ نشستوں پر لوگ جوش وخروش دکھا رہے ہیں وہیں ریاست کے اندر بھی ایسے حالات نظر آرہے ہیں کہ جیسے یہ انتخابات امریکہ کے صدارتی انتخاب سے بھی زیادہ اہمیت والے ہوں۔ہاں یادآیا کہ آزادکشمیر اور پاکستان میں مہاجرین کی نشستوں پر کوئی ایسا امیدوار نظر نہیں آرہا جس کو اپنی شکست بھی نظر آ رہی ہو کیونکہ ہر کوئی یہی دعویٰ کر رہا ہے کہ وہی یہ انتخاب جیتے گا۔ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کوایل اے تین میں کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے ۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ آزادکشمیر میں کوئی نظریاتی یا پارٹی سیاست ہر گزنہیں ہے بلکہ وہاں برداری بازی کی سیاست ہے اور یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی امیدوار پارٹی کے ووٹوں پر بھروسہ نہیں کر سکتا ۔دوسری طرف یہ بھی اہم ہے کہ کچھ لوگ یہ بھی نہیں چاہتے کہ بیرسٹر سلطان محمود جیت کر وزات عظمیٰ کے امیدوار ہوں ۔بیرسٹر سلطان محمود نے گذشتہ تمام انتخابات مختلف سیاسی پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے لڑے ہیں لیکن ان کی برادری نے ا ن کا بہت ساتھ دیا ہے تاہم اب معاملہ یہ ہے کہ ایل اے تین سے ایک نہیں تین جاٹ الیکشن لڑ رہے ہیں اورہر جاٹ اپنے تئیں ”چوہدری“ ہے جو اپنا اثر ورسوخ اور ووٹ بنک ر کھتا ہے ۔تین جاٹ امیدواروں کے میدان میں آنے سے جاٹوں کے ووٹ تقسیم ہوں گے لیکن یہاں سے جو کوئی بھی جیتے گا وہ جاٹ ہی ہو گا- اب یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ جیت کا ہما کس جاٹ کے سر پر بیٹھتا ہے ۔ آزادکشمیر میں رہی سہی نظریاتی سیاست کو ایک دھچکہ جماعت اسلامی آزادجموں وکشمیر کے سابق امیراورباغ کے حلقے سے امیدوارعبدالرشید ترابی نے لگایا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار سردار تنویر الیاس کے حق میں دستبردارہو گئے ہیں - جماعت کے حلقوں کا کہنا ہے عبدالرشیدترابی نے دستبردار ی کا اعلان جماعت کے نظم کو اعتماد میں لے کر نہیں کیا ۔جماعت اسلامی بہرحال ایک نظریاتی جماعت تو ہے اور اس کا طریق یہ ہے کہ ان کے امیدوار کو اگر اپنی ہار یقینی بھی نظرآتی ہوتو وہ جماعت کے نظم کے فیصلے کے مطابق ہی کام کرتا ہے - یقینا جماعت اسلامی کو برصغیر کے مختلف ممالک کی اسمبلیوں میں گنتی کی چند سیٹیں ملتی ہیں لیکن ان کے امیدوار ہارنے کے باوجود حوصلے کا مظاہرہ کر تے ہیں - گو جماعت اسلامی نے عبدالرشید ترابی کی رکنیت ختم کرکے انہیں جماعت سے خارج تو کر دیا لیکن اس سے ووٹروں اور خاص طور پر کارکنان جماعت اسلامی کی تسکین نہیں ہوئی اور بہت سے سوال اب بھی گردش کر رہے ہیں ۔حلقہ باغ میں بھی بے یقینی کی ایک کیفیت ہے۔یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ حلقہ نمبر تین میں بیرسٹر سلطان محمود کو ہرانے کےلئے جو عوامل کارفرما ہیں وہ باغ کے حلقے سے سردار تنویر الیاس کی کامیابی میں بھی کارفرما ہیں کیونکہ سردار تنویر الیاس بھی آزادکشمیر کی وزارت عظمیٰ کے آئندہ امیدوار ہیں ۔ ایک حلقے کا یہ کہنا ہے کہ آزادکشمیر میں وہی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے کہ جو پاکستان کے گزشتہ انتخابات میں پیدا کی گئی تھی۔آزادکشمیر میں ایسے حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں کہ انتخابات میں کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے اور وہاں مخلوط حکومت بنے ۔ یہ صورت حال بہرحال ریاست جموں کشمیر اور خاص طور پر تحریک آزادی کشمیر پر بہت برے اورمنفی اثرات مرتب کرسکتی ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ کسی امیدوار اور اس کے حامی کو تحریک آزادی کشمیر یا ریاست جموں کشمیر کی وحدت سے کوئی غرض نظرنہیں ہے بلکہ ان پر ایک ہی دھن سوار ہے کہ کسی طرح ان کا امیدوار جیت جائے - یہ بات بھی شد ومد سے کہی جار ہی ہے کہ موجودہ انتخابات گزشتہ انتخابات سے مختلف ہوں گے ۔کوئی فریق دھاندلی نہیں کر سکے گا اور کشمیری اپنافیصلہ خودکریں گے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ قوم پرست کشمیری اب اس صورتحال سے تنگ آچکے ہیں۔تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کے رہنما علی امین گنڈا پور کی کسی ووٹر کو پیسے دیتے ہوئے ویڈیو وائرل ہوئی توانہیں ریاست بدر کر دیا گیا اور ان پر انتخابی مہم چلانے کی پابندی لگا دی گئی ہے تاہم یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس حکم کے باوجود وہ ریاست میں آجارہے ہیں - قوم پرست حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر وفاق یا حکومت پاکستان اس طرح آزادکشمیر کے انتخابات میں منفی مداخلت کرتی رہی تو اس سے نہ صرف تحریک آزادی کشمیر پر منفی اثرات پڑیں گے بلکہ اس سے ریاست کے لوگوں میں پاکستان سے نفرت کا بیج بھی بویا جائے گا-الغرض انتخابات سر پر آگئے ہیں اور اس دفعہ انتخابی مہم گو روایتی توہے لیکن ہوسکتا ہے کہ اپنی طریق کے یہ آخری انتخابات ہوں کیونکہ اب قوم پرست کشمیری زیادہ متحرک نظر آرہے ہیں اور وہ کسی صورت پاکستان کی مداخلت کو برداشت نہیں کریں گے - کل کے انتخابات یقینا پاکستان او رآزادکشمیر کے تعلقات میں ایک اہم حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ ”روایت “ ہے کہ پاکستان میں مہاجرین جموں وکشمیر کی سیٹوں پر وہی جماعت ”کامیاب“ ہوتی ہے جس کی پاکستان میں حکومت ہوتی ہے ۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ یقینادھاندلی سے ہی ایسا ہو سکتا ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بارہ کی بارہ سیٹیں حکومت کو ملیں؟۔
تازہ ترین