نعت عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی تعریف و توصیف بیان کر نے کے ہیں ،لیکن ادبیات اور شاعری میں یہ لفظ محمّدمصطفی ﷺ کی تعریف و مدح کے لیے مخصوص ہے ۔ نعت ایک صنفِ سخن ہے، بعثتِ رسول اکرم ﷺ کے بعد سےشاعری کی مختلف ہیئتوں، مثلاً قصیدے مثنوی ،غزل، قطعے،مسدّس، نظم اور ہائیکو میں نعتِ رسولﷺ کہی جارہی ہے۔ نعت میں اب شمائلِ رسولﷺ اورفضائلِ رسولﷺ کے ساتھ ساتھ تبلیغِ اسلام اور امّت کے حالات بھی لکھے جار ہے ہیں کہ سیرتِ رسولﷺکی اطاعت و پیروی ہی میں ہماری دنیاوی زندگی اور آخرت کی آسانیاں مضمر ہیں ۔
یہاں ایک انتہائی غور طلب امر یہ ہے کہ نعت ِرسول ﷺ میں غلو کی گنجائش نہیں کہ ذراسی بے احتیاطی سے ہم ثواب کے بجائے گناہ کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے شاعر کو چاہیے کہ نعت گوئی میں عبد ومعبود کا خیال رکھے ۔نعت میں حمد کے مضامین نہیں باندھے جائیں ۔ان دونوں کے مابین واضح فرق رہنا چاہیے ۔اسلامی اصولوں کے مطابق نعت کہنا ،پڑھنا اور سُنناعین عبادت ہے۔
نعت گوئی کا آغاز،حجازِ مقدّس سے ہوا اور اُس کے بعد نعتِ رسولﷺ ساری دنیا میں پھیل گئی، جب کہ برّ ِصغیر پاک و ہندمیں نعت گوئی کوعربی اور فارسی زبان نے فروغ دیا۔ ہندوستان میں حضرت خواجہ نواز گیسو دراز کے کہے نعتیہ اشعار کو پہلی نعت کہا جا تا ہے۔ تاہم، بعض محقّقین کے مطابق فخرالدّین نظامی کی نعتیہ مثنوی ہندوستان کی تاریخ میں پہلی نعت ہے ۔نعت گوشعرا نے ہر زمانے میں نعت کے ذریعے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سےبیدار کیا۔ تحریکِ پاکستان میں بھی نعت گو شعرا نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ،لیکن آزادی کی تحریک کی ترویج واشاعت میں مسلمانوں کے جذ بۂ ایمان کو تاز ہ کرتے رہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد سے نعتیہ شاعری روز بروز ترقّی کر رہی ہے۔ عصرِ حاضر میں کئی افراد نعتیہ ادب میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، مقالے لکھے جار ہے ہیں، ان پرتحقیقی اورمطالعاتی کام بھی جاری ہے۔ نیز، نعتیہ شعری مجموعے بھی تواتر سے شایع ہور ہے ہیں ۔ نعت گوئی کے فروغ میں الیکٹرانک ، پرنٹ میڈ یا نعتیہ مشاعروں نے اپنا اپناحصّہ ڈالا اور اب بھی یہ کام جاری ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکارممکن نہیں کہ نعتیہ ادب کا جتنا سر مایا اردو زبان میں موجود ہے، اتنا کسی دوسری زبان میں نہیں ۔
شاعری کی دیگر اصناف میں شاعراپنے محبوب کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملا سکتے ہیں،مگر نعت گوئی کا معاملہ الگ ہے کہ نعت گو پر لازم ہے کہ وہ جوشِ بیاں میں بھی نعت نگاری کی حدودو قیود سے باہر نہ نکلے اور رسالتِ مآب ﷺ کے فضائل و مناقب میں کسی صُورت کمی وزیادتی نہ کرے ۔ یعنی، نعت میں وہی ذکر ہو نا چاہیے، جو خدا کے نبیﷺ کے شایانِ شان ہو، جس کے پڑھنے اور سُننے سے لوگوں پر روحانی اور اخلاقی اثرات مرتّب ہوں۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ نعت طبع آزمائی کی محتاج نہیں ،یہ عطائے ربّ ِ کریم ہے کہ ایک تخلیق کار اپنے احساسات وجذبات سے سرشار ہوکرہی نعت کہہ سکتا ہے۔
البتہ، نعت نگاری میں تنقیدی رجحانات پر اتنا کام نہیں ہوا ،جتنا ہونا چاہیے تھا۔ وقت و حالات کا تقاضا ہے کہ ہم نعت کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ جد یدلب و لہجے، نئے استعاروں اور آسان زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کر یں۔ نیز، ہمارا خیال ہے کہ نعت نگاری میں بھی تنقید نگاری کی گنجائش نکلتی ہے کہ تنقید کسی بھی زبان وادب کے لیے ترقّی کی ضامن ہوتی ہے۔ اللہ تعالی سے دُعا ہے کہ ہم سب کو ہمیں شریعت کے مطابق نعت گوئی کی سعادت عطا فرمائے۔