قابل اجمیری نے اپنے ایک شعر میں بہت خُوب صورت بات کہی ہے کہ؎ ’’وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔‘‘ شوبزنس کی رنگ برساتی دُنیا میں اکثر ایسا ہی دیکھا گیا ہے۔ کئی برس کی مسلسل جدوجہد کے بعد کسی فن کار کا نام سامنے آتا ہے۔ اگر اتفاق سے کسی فن کار کو راتوں رات شہرت مل بھی جائے، تو ساری زندگی اسے قائم رکھنے میں گزر جاتی ہے۔ ٹیلی ویژن کی منجھی ہوئی فن کارہ عائشہ عمر کا شمار ایسے فن کاروں میں کیا جاتا ہے، جنہوں نے دِن، رات محنت کی اور شوبزنس میں خُوب نام کمایا۔ آج ان کا شمار صفِ اوّل کی فن کارائوں میں ہوتا ہے۔
انہوں نے نہ صرف اداکاری میں خود کو منوایا، بلکہ گلوکاری، ماڈلنگ اور کمپیئرنگ میں بھی اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا جادو جگایا۔ وہ ایک وراسٹائل فن کارہ کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’جب میں بہت خوش ہوتی ہُوں اور میرا باتیں کرنے کو دِل چاہتا ہے، تو کمپیئرنگ کرنے لگتی ہوں اور جب موسیقی کے رنگ بکھیرنے کو جی چاہتا ہے، تو گانے گانا شروع کردیتی ہوں، لیکن اب میری ساری توجّہ فلموں اور ڈراموں پر ہے۔‘‘
عائشہ عمر کو فنونِ لطیفہ کی مختلف اصناف میں کام کرنے کا ہنر آتا ہے۔ آٹھ برس کی عمر میں پاکستان ٹیلی ویژن پر ’’میرے بچپن کے دِن‘‘ نامی پروگرام کی میزبانی کی۔ یُوں کیمرے کی چکاچوند سے ان کی شرارتی آنکھیں بچپن ہی سے واقف ہوگئی تھیں۔ این سی اے لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد 2000ء میں فیشن انڈسٹری میں قدم رکھا، تو پہلے ہی فوٹو شوٹ نے میڈیا کی بھرپور توجّہ حاصل کرلی تھی۔
اَن گنت ٹی وی کمرشلز میں کام کیا، تو ناظرین کے دل جیت لیے اور پھر ہلکی پھلکی مزاح سے بھرپور ڈراما ’’کالج‘‘ سے ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کا آغاز کیا۔ میوزیکل شوز ’’ردھم‘‘ اور بیٹل آف دی بینڈز کی میزبانی بھی کی۔ 2003ء میں انہیں بیسٹ فی میل پرفارمر کا ایوارڈ دیا گیا۔ بعدازاں، عائشہ عمر نے بے شمار ٹیلی ویژن ڈراموں میں کام کیا۔ ان کے قابلِ ذکر ڈراموں میں ’’کچھ لمحے زندگی کے‘‘ ’’میری ذات ذرہ بے نشاں‘‘ ’’ڈولی کی آئے گی بارات‘‘ ’’لیڈیز پارک‘‘ ’’زندگی گل زار ہے‘‘ ’’میری گڑیا‘‘ ’’بلبلے‘‘ و دیگر شامل ہیں۔ تاہم، ’’بلبلے‘‘ کا مقبول کردار ’’خُوب صورت‘‘ ان کی شناخت بن گیا۔ 2012ء میں ان کا میوزک البم ’’خاموشی‘‘ ریلیز ہوا اور بے حد پسند کیا گیا۔
اداکارہ ریما خان کی فلم ’’لَو میں گم‘‘ اور ہمایوں سعید کی فلم ’’میں ہُوں شاہد آفریدی‘‘ میں مہمان آداکار کی حیثیت سے کام کرکے فلم شائقین کی بھرپور توجہ حاصل کی۔ 2015ء میں ہدایت کار وجاہت رئوف کی فلم ’’کراچی سے لاہور‘‘ میں بہ طور ہیروئن کام کیا۔ اس فلم میں نہ صرف ان کی اداکاری کو پسند کیا گیا، بلکہ آئٹم سونگ ’’ٹوٹی فروٹی‘‘ کو بھی فلم بینوں نے سراہا۔ ان کی دیگر فلموں میں یلغار، سات دِن محبت اِن، کاف کنگنا اور دیگر شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں ان سے ایک ملاقات میں دل چسپ گفتگو ہوئی، جس کی تفصیل نذرِقارئین ہے۔
س: سوشل میڈیا پر آپ کی تصویروں پر بہت تنقید کی جاتی ہے، تو آپ کا کیا ردّعمل ہوتا ہے؟
عائشہ عمر: حسد کرنے والے مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ جیلسی میں بھی پیار چُھپا ہوتا ہے، میں اس کو بھی انجوائے کرتی ہُوں۔
س: آپ نے حال ہی میں فوڈز کا بزنس شروع کیا ہے، اس کا رسپانس کیسا آرہا ہے؟
عائشہ عمر: جی جناب، بہت اچھا رسپانس آرہا ہے، سب دوستوں نے میرے اس اقدام کوبہت سراہا ہے۔ شوبز کی موجودہ صورت حال میں فن کاروں کو بزنس کی جانب بھی توجّہ دینی ہوگی۔
س:بچپن کیسا گزرا، ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
عائشہ عمر:میرا بچپن لاہور میں ہی گزرا ہے۔ 12؍اکتوبر کو لاہور میں پیدا ہوئی، گرائمر اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ کالج جوائن کرنے سے پہلے چھ ماہ تک اسی اسکول میں ٹیچنگ بھی کی۔ میں بہت اچھی اسٹوڈنٹ رہی ہوں، اسکول میں میری حاضری مکمل ہوتی تھی، جب دو برس کی تھی، تو والد کا انتقال ہوگیا۔ ہمیں والدہ نے ماں، باپ بن کر پالا، وہ جوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں، لیکن بچّوں کی خاطر شادی نہیں کی۔ میری والدہ تمام عمر شعبہ تدریس سے وابستہ رہیں۔ ہمیں اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔
ہم نے جس اسکول میں داخلہ لیا، وہاں کی فیس اور دیگر اخراجات بہت زیادہ تھے، جو ہم برداشت نہیں کرسکتے تھے، مگر امی نے ٹیوشنز پڑھائیں، ٹیچنگ کی اور یہاں تک کہ اسکول وین بھی چلائی، پھر پیسے جوڑ جوڑ کر ہمارے تعلیمی اخراجات پورے کیے۔ میں نے گریجویشن کرنے کے بعد طے کرلیا تھا کہ والدہ کو مزید کام کرنے نہیں دوں گی۔ میرا بھائی مجھ سے ڈیڑھ سال بڑا ہے۔ بھائی کو بیرون ملک پڑھنے کے لیے بھیجا۔
میری ماں کی خواہش تھی کہ میرے دونوں بچے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور ان کی تعلیم کبھی ختم نہ ہو اور پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کریں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں امی کے ساتھ پاکستان ہی میں رہوں گی۔ میری ماں نے مجھے کبھی نہیں کہا کہ تم کوئی کام کرو۔ میں نے ان سے کہا کہ بھائی نے ماسٹرز کرلیا ہے اور وہ پی ایچ ڈی شروع کررہے ہیں، میں گھر کو سپورٹ کروں گی۔
بچپن میں امی نے ہماری تعلیم و تربیت کے ساتھ ہماری خوراک کا بھی بہت خیال رکھا۔ وہ ہمیں باجرے کی روٹی، کلونجی، کھجور، بادام کھلاتی تھیں۔ بچپن میں ہمیں زیادہ اچھا نہیں لگتا تھا، لیکن جب امی سے دُور کراچی آکر رہنے لگی، تو اب وہی چیزیں خود کررہی ہوتی ہوں۔
س:آپ کی شکل معروف گلوکارہ نازیہ حسن سے کتنی ملتی ہے؟
عائشہ عمر: شکل کا تو مجھے معلوم نہیں، البتہ میری آواز نازیہ حسن سے ضرور ملتی ہے۔ ایسا میرے دوست کہتے ہیں۔
س: شادی کا کب ارادہ ہے؟
عائشہ عمر: میں ایسے شخص سے شادی کروں گی جو میری ماں کا مجھ سے زیادہ خیال رکھے۔ میں شادی سے بالکل نہیں ڈرتی، شادی تو کرنی ہے، ابھی بہت کام کرنا ہے۔ ساری زندگی پڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے نئی زندگی عطا کی ہے، میرے لیے میری فیملی سب سے اہم ہے۔
س: بچپن کی سہیلیاں یاد آتی ہیں؟
عائشہ عمر: جی ہاں! زارا اور انوشے میری بہت پُرانی دوست ہیں۔ میری ان سے اس وقت سے دوستی ہے، جب میں دوچار برس کی تھی۔
س:زندگی کے فیصلے خود کرتی ہیں؟
عائشہ عمر: میری زندگی کا یہ بڑا المیہ ہے کہ مجھ سے فیصلے نہیں ہوتے، یہ میرے اسٹار میں بھی ہے۔ میں کبھی فیصلے جلدی کرلیتی ہوں اور پھر اس فیصلے پر شک و شبے میں مبتلا رہتی ہوں۔ میں زندگی میں بہت زیادہ تحفظ چاہتی ہوں اور مزے کی بات ہے کہ فرسٹ اینڈ سیکنڈ ویو وقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ بچپن ہی سے یہ سوچتی رہی ہوں کہ میں کسی کے سہارے آگے نہ بڑھوں، ہمیشہ خودمختار رہوں۔ بس اللہ تعالیٰ کی مدد کی طلب ہو، اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہ کرے۔
س:چند برس قبل آپ کا خطرناک ایکسیڈنٹ ہوا تھا، اس وقت آپ کی حالت اور جذبات کیا تھے؟
عائشہ عمر:میری زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ تھا۔ وہ بہت مشکل وقت تھا، جب ایکسیڈنٹ ہوا، تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔
س:پاکستانی فلموں کا دور واپس آئے گا، آپ کیا کہتی ہیں؟
عائشہ عمر:مجھے بہت خوشی ہوئی تھی، جب لوگ بڑی تعداد میں فلمیں دیکھنے گھروں سے نکلے تھے۔ پاکستانی فلموں کے پریمیئرز کے موقعے پر فن کاروں کا میلہ دیکھنے کو ملتا تھا، میں بھی ساتھی فن کاروں کی فلموں کے پریمیئر پر ضرور جاتی تھی۔
میری فلم ’’کراچی سے لاہور‘‘ کا رسپانس بہت اچھا آیا تھا، اس کے بعد بھی کئی فلمیں کی ہیں، کاف کنگنا میں میرا کردار پسند کیا گیا۔ تین چار فلمیں ریلیز کا انتظار کررہی ہیں۔ کورونا کی وجہ سے سب کچھ رُک گیا ہے۔ بہت جلد ہم سب پھر اکٹھے ہوں گے اور پھر سے رونقیں بحال ہوں گی۔
س:مطالعے کا شوق ہے؟
عائشہ عمر:جی ہاں! کتابیں بہت دل چسپی سے پڑھتی ہوں اور شاعری اور انگلش فکشن کا بھی مطالعہ کرتی ہوں۔
س:کھانے پینے میں کتنی دل چسپی لیتی ہیں؟
عائشہ عمر:میں تھائی فوڈ شوق سے کھاتی ہوں، گندم بہت کم استعمال کرتی ہوں۔ ویسے مجھے ’’سی فوڈ‘‘ بہت اچھے لگتے ہیں، مچھلی بہت شوق سے کھاتی ہوں۔ پورے دن میں صرف ایک کپ چائے پیتی ہوں، کافی بھی پسند ہے۔ میں بچپن میں بریانی بہت شوق سے بناتی تھی، اب کوکنگ کے لیے وقت نہیں ملتا۔
مجھے پہاڑوں سے بھی عشق ہے۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ چھانگا مانگا کے جنگلوں میں جاکر بس جائوں۔ میرا ایک خواب یہ بھی ہے کہ میرا ایک فارم ہائوس ہو، جہاں میں سکون سے رہوں۔ اپنی سبزیاں اگائوں، مرغیاں پالوں اور دوچار بھینسیں ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ننگے پائوں مٹی میں چلوں، ساحلِ سمندر پر ننگے پائوں چلوں۔
س:میک اپ پر کتنی توجّہ دیتی ہیں؟
عائشہ عمر: میک اپ کی ضرورت تو ہر لڑکی کو ہوتی ہے، لیکن میری توجّہ صحت پر زیادہ ہوتی ہے۔ آج کل صبح اٹھ کر ناریل کا پانی پیتی ہوں۔ کسی نے مشورہ دیا تھا کہ ہڈیوں کے لیے بہت اچھا ہے۔ سوکر اٹھتی ہوں، تو بہت اچھا موڈ ہوتا ہے۔ سوچتی ہوں قدرت نے ایک نیا دن دیا ہے۔ مجھے نیند بہت آتی ہے، نیند کا بروقت آنا ایک نعمت ہے۔