• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
” پاکستان کے انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد قبول کیجئے، آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ عوام نے آپ پر اعتماد کیا ہے ۔ یہ اعتماد امتحان بھی ہے اور آزمائش بھی ۔ میں دُعا کرتا ہوں کہ پروردگار آپ کو اِس امتحان میں کامیابی نصیب کرے۔ بھارت نے جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ نہ جمایا ہوتا تو کشمیر پاکستان کا حصہ ہوتا اور یہاں بھی انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہوتا مگر بھارتی استعمار نے ناجائز تسلط برقرار رکھنے کے لئے پانچ لاکھ انسانوں کو تہہ تیغ کر دیا ۔ ہمیں طعنہ دیا جاتا تھا کہ کشمیریوں کی خاموشی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جب تک یہ خود نہیں اُٹھیں گے آزادی کی نعمت سے محروم رہیں گے۔ کشمیریوں نے انگڑائی لی، نصف صدی پر محیط آزادی کی جدوجہد نے 22سال قبل ایک نیا موڑ لیا۔ ایک ایسی جدوجہد شروع ہوئی کہ گزشتہ دو عشروں میں ایک لاکھ کشمیریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکا گیا ۔ ہزاروں ماؤں بہنوں کی عصمتیں تار تار کر دی گئیں ، لاتعداد نوجوان غائب کر دےئے گئے،کشمیریوں کی اربوں روپے کی تجارت ختم کر دی گئی۔سات لاکھ بھارتی افواج کے مظالم ہمارے جذبوں کو ٹھنڈا نہ کر سکے۔ زندہ آبادیاں قبرستانوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ کشمیری اُٹھے تو پاکستان کے حکمران سو گئے۔ امریکی خوشنودی، مادی منفعت اور بھارت سے دوستی کے لئے کشمیر پر قومی موقف کو پس پُشت ڈال دیا گیا ۔بدقسمتی سے گزشتہ برسوں میں ہماری جِدوجہد کو جس قدر نقصان ”اپنوں“ کے ہاتھوں پہنچا اُس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی مگر میں بتاتا چلوں کہ ہمارا حوصلہ ٹوٹا نہ ہم مایوس ہوئے۔ حالات خواہ کتنے بھی ناساز گار ہو جائیں ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے“۔ یہ مبارکباد، لازوال جدوجہد کا تذکرہ، غاصب کی مکاری، اپنوں کی بے وفائی اور عزم صمیم کا اظہار جموں و کشمیر کے قافلہ سالار سید علی گیلانی نے پاکستان کے نو منتخب ممبران اسمبلی کے نام ایک کُھلے خط میں کیا ہے۔
سید علی گیلانی ، کوئی اُنہیں کشمیریوں کا نیلسن منڈیلا اور کوئی عمر مختار کے نام سے پُکارتا ہے مگر کشمیر میں گیلانی کا نہ کوئی ہمسر ہے نہ متبادل ، دِل کا عارضہ اُنہیں لاحق ہے، ایک گُردے سے وہ محروم ، آنکھوں کی بینائی اُن کی متاثر ۔ مگر دِل دماغ کی بینائی سے وہ مالا مال ، جذبہ توانا ، جس کی زندگی کا ایک چوتھائی سے زائد جیلوں یا گھر میں نظر بندی کی نذر ہو گیا ۔ہر اہم موقع پر قید اُس کا مقدر ٹھہرتی ہے کہ بھارتی نیتا یہ سمجھتے ہیں کہ اُس کی عوام میں موجودگی کشمیریوں کے جذبوں کو اُبھارنے میں مہمیز کا کردار ادا کرتی ہے۔ افضل گورو کی شہادت پر بھی اُسے نظر بند کر دیا گیا تو برطانوی اخبار دی انڈیپینڈنٹ کے نامہ نگار اینڈریو نے سوال اٹھایا کہ 83 سالہ بوڑھے گیلانی سے انڈیا خائف کیوں ہے؟ اینڈریو نے لکھا کہ گیلانی پر الزام لگتے رہے کہ اُسے پاکستان سے مالی امداد حاصل ہے، اُن کے عسکری جتھوں سے روابط ہیں مگر گیلانی کا سب سے بڑا ہتھیار ”پُرامن ہڑتالیں اور غیر متشددانہ کارروائیاں“ ہیں ۔
29 ستمبر 2013 ء کو وہ 84 سال کے ہو جائیں گے ۔ بڑھاپے اور بیماری میں بھی اُن کے جذبے جوانوں سے بڑھ کر ہیں ۔ وہ لاکھوں کشمریوں کے دِلوں میں بستے ہیں ۔ کشمیری نوجوانوں کے دِلوں میں اُنہوں نے آزادی کی ایسی شمع روشن کی جس کی لَو انشاء الله کبھی ماند نہیں پڑے گی ۔ بھارتی قیادت کا ناجائز قبضے پر بھی ہمیشہ یکساں موقف رہا ہے مگر پاکستانی قیادت کے رویوں اور فیصلوں میں کئی بار اُتار چڑھاؤ آیا ۔ 2001ء میں پاکستانی آمر جرنیل کے آگرہ مذاکرات کے موقع پر یہ قلم کار بھی دہلی میں موجود تھا ۔ اُس وقت سید علی گیلانی پاکستانی حکمرانوں کے سب سے زیادہ پسندیدہ کشمیری رہنما تھے ۔ مُجھے اچھی طرح یاد ہے جب پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک ذمہ دار نے ” آف دِی ریکارڈ “ بریفنگ میں کہا ”گیلانی“ ہمارے لئے سب سے زیادہ قابل اعتماد اور کشمیر کی تحریک آزادی کے لئے اثاثہ ہیں۔ ”ذمہ دار“ نے بعض کشمیری لیڈروں کے نام لے کر کہا کہ فلاں فلاں کے اندرونِ خانہ بھارتی سرکار سے روابط ہیں ۔ اُنہوں نے بعض کشمیری رہنماؤں کو شاطر قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت دونوں سے مالی منفعت حاصل کر رہے ہیں ، وقت آنے پر جِس ملک کی کشتی تیز رفتاری سے فاصلے طے کرے گی یہ رہنما اُس کی کشتی میں سوار ہو جائیں گے۔ لالہ صحرائی منزل ہے کہاں تیری کے مِصداق پاکستانی حکمران قیادت کی پالیسیوں میں عدم ٹھہراؤ رہا کشمیریوں کی پیٹھ میں پاکستان کے سابق آمر حکمران نے چُھرا گھونپا ، 9/11 کے بعد سب سے زیادہ ” قابل اعتماد “ گیلانی بیگانہ ٹھہرا، ”شاطر“ پھر پیارے ہو گئے مگر کشمیریوں کی غیر متزلزل جدوجہد کو کِسی کی بے وفائی نہ روک سکی ۔پاکستانی قیادت کی عدم توجہی کے باوجود آج بھی غالب اکثریت ریاست کشمیر کا الحاق پاکستان سے چاہتی ہے ۔ اِس غالب اکثریت کے روح رواں جناب گیلانی اِسی لئے نو منتخب ممبران اسمبلی کو کہتے ہیں کہ ”پاکستان سے عقیدت اپنی جگہ مگر پاکستانی حکمرانوں کی خوشنودی کی خاطر ہم حق خود ارادیت کے قومی موقف کو ترک کر دیں یہ ممکن نہیں۔ ہمیں اطمینان ہے کہ سولہ کروڑ پاکستانی ہمارے موقف کی تائید کرتے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستانی عوام نے گزشتہ حکمرانوں کی کشمیر پالیسی کو مسترد کر کے اُنہیں شکست فاش سے دوچار کیا ہے ۔
سید علی کہتے ہیں کہ تکمیل پاکستان کی جائز جدوجہد کو دہشت گردی کسی صورت قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ہم جھوٹ سے متاثر ہو کر اپنی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ہمارا یہ موقف کشمیر اسمبلی کے ایوانوں میں بھی رہا ہے، بھارتی ٹینکوں کے سامنے بھی اور اذیت کدوں میں بھی، جہاں ہمارے نوجوانوں کی کھالیں کھینچی جا رہی ہیں ۔ ہم اپنے موقف پر قائم ہیں ۔ جبر و تشدد ، جیلیں، اذیت کدے اور پاکستانی حکمرانوں کی ناراضی بھی ہمیں اپنے موقف سے ہٹا نہیں سکتی۔ ہمیں الله کی تائید حاصل ہے اس کے بل بوتے پر ہم ہر آنے والے دِن نئے عزم کے ساتھ قدم آگے بڑھ رہے ہیں ۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستانی حکمرانوں کی بے وفائی بھی ہمارے دِل سے پاکستان کی محبت ختم نہیں کر سکتی ۔ پاکستان کے اندر حالیہ واقعات پر ہمارے دل زخمی ہیں ، ہم خون کے آنسو روتے ہیں ۔ پاکستان میں خوشی کا ادنیٰ موقع بھی آئے ہمارے ہاں جشن مُسرت بپا ہوتے ہیں ۔ گزشتہ پارلیمینٹ کا کردار صفر رہا ہے ۔ ہم نو منتخب قیادت سے امید رکھتے ہیں کہ نہ صرف پاکستان اپنے حالیہ بحران سے بخیر و خوبی نکل جائے گا بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھی پاکستانی حکمران اور پارلیمان بصیرت افروز فیصلے کرے گی ۔پاکستان کی سلامتی اور بقاء ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے آپ کو پاکستان کے عوام نے منتخب کیا ہے ۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر آپ کی اپنی شہ رگ کا مسئلہ ہے ۔
اسے کشمیری عوام کی اُمنگوں کے مطابق حل کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ میں تجربے کی بنیاد پر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب پارلیمان عوام کے جذبوں اور آئین کی پاسداری نہ کرے تو اُس کا حشر وہی ہوتا ہے جو جموں وکشمیر اسمبلی کا ہوا۔گیلانی صاحب نے کہا کہ بھارت کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے ہم ہرگز خلاف نہیں، نہ ہی ہم خون خرابہ چاہتے ہیں مگر بھارت کی پوری تاریخ کہہ مُکرنیوں اور وعدہ شکنیوں سے بھری پڑی ہے۔ مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا تو پھر ہم بار بار کیوں ڈسے جا رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے حکمران بھارت کے اشاروں پر ناچنے کا سلسلہ ترک کر دیں۔آپ اپنی ذمہ داری کشمیر کے حوالے سے ادا کریں،آپ کا خلوص اور جانفشانی کشمیر کی آزادی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہم تکمیل پاکستان کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، ہر مشکل کا سامنا کریں گے، تھکیں گے نہ غاصب حکمرانوں کے سامنے جھکیں گے “۔
سچ کہا جناب سید علی گیلانی نے کہ ہم خون خرابہ نہیں چاہتے ۔ بھارت کے جنگی جنون کی بنا پر دو ممالک جن کی معیشت کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ دونوں ایٹمی ممالک تادیر جنگی جنون میں مبتلا کیسے رہ سکتے ہیں ؟؟ بھارت کو چاہئے کہ نمود و نمائش کے چکروں سے نکل کر اعتماد سازی کے لئے دو ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ٹھوس اقدامات کرے ۔ پاکستان کے اُس حکمران طبقے، غیر سرکاری تنظیموں اور افراد سے جو یہ سمجھتے ہیں کہ محض ”جپھیوں“ سے دو ملکوں کے درمیان تعلقات کار بہتر ہو جائیں گے سے گزارش ہے کہ تباہ شدہ معیشت ، توانائی کا بحران آپ کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے یاد رکھو بانی پاکستان نے جس کو شہ رگ قرار دیا تھا اُس کا مسئلہ حل نہ ہوا تو سب سے بڑے بحران سے تم کو کوئی نجات نہیں دلا سکے گا، وہ بحران ہو گا پانی کی کمی کا۔ چالاک بھارت تمہیں بات چیت میں اُلجھا کر ڈیم پر ڈیم بنا رہا ہے اور تم ہو کہ خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہو رہے ۔
اُٹھو وگرنہ داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں
تازہ ترین