پاکستان ریاست مدینہ کے استثنیٰ کے ساتھ دنیا کی پہلی ریاست ہے جواسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی ۔دوقومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والے پاکستان کا مقصد یہی تھا کہ مسلمان اپنے نظریات و عقائد اور اپنی تہذیب و ثقافت کے مطابق آزاد انہ زندگی گزار سکیں ۔ تحریک پاکستان کے دوران ہندوؤں کی سیاسی جماعت کانگریس کے علاوہ مسلمانوں کے بعض حلقے بھی دو قومی نظریہ یعنی قیام پاکستان سے متفق نہ تھے۔ ان میں ایک بلند پایہ شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد کی بھی تھی ۔ انہیں دوقومی نظریے پر بننے والی مسلم ریاست کے بارے میں بہت سے تحفظات اور خدشات لاحق تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اپنے وقت کے جید عالم دین ،مدبّر،مفکر،مفسر ِ قرآن،بے باک مقرر و صحافی اورصاحب طرزِ ادیب تھے ۔ان کا شمار برصغیر کے صف اوّل کے سیاستدانوں میں ہوتاتھا۔ان کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی سحر انگیز شخصیت سے انکار ممکن نہیں ۔انہوں نے اپریل1946ء میں معروف صحافی آغا شورش کاشمیری کو ایک انٹرویو میں پاکستان کے حوالے سے متعدد خدشات کا اظہار کیا تھاجو اس وقت دیوانے کی بڑ سمجھے گئے لیکن افسوس کہ بعد میں ان کی یہ باتیں کافی حد تک درست ثابت ہوئیں ۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ قائد اعظم اور خان لیاقت علی خان جب تک زندہ رہیں گے ،پاکستان ایک رہے گا لیکن ان کی وفات کے بعداس کے دونوں حصوں یعنی مغربی اور مشرقی پاکستان کا متحد رہنا دشوار ہو جائے گا ۔ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پنجاب ،سندھ ،بلوچستان اور سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا)کے مابین صوبائی اور نسلی تعصبات کو ہوا دینے کے لئے بیرونی مداخلت کے دورازے کھل جائیں گے ۔پاکستان کااقتدار وڈیروں ،جاگیر داروں ، صنعت کاروں اور نودولتیوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا جو قومی دولت کی لوٹ مارمیں لگ جائیں گے۔قومی سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا جانے لگے گا ۔ان لوگوں کی لوٹ مار کے سبب ملک میں ایک طبقاتی جنگ کا ماحول پیدا ہو گا ،بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ جائے گا ۔نااہل سیاسی قیادت فوجی آمروں کے لئے راہ ہموار کردے گی پاکستان کے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات خراب ہوں گے ۔ ملک کو کنٹرول کرنے کے لئے عالمی سازشیں بڑھیں گی ۔ایسی صورتحال پیدا کردی جائے گی کہ ملکی استحکام بیرونی دباؤ کا شکار ہو نے لگے گا ۔مسلم ممالک کسی بھی قسم کا تعاون کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے ۔شرائط کے بغیر بیرونی امداد کا حصول ممکن نہیں ہو گا ۔جس کی وجہ سے پاکستان نظریاتی اور سرحدی سمجھوتوں پر مجبور ہو جائے گا ۔نوجوان مذہب اورنظریہ ء پاکستان سے دور ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل سے مایوس ہونے لگیں گے ۔مولانا کا خیال تھا کہ پاکستان بننے کے بعداس پر مغربی قوتوں کا تسلط قائم ہو جائے گا اورساری سیاست کا محور و مرکز ’’لندن ‘‘ہوگا ۔عالمی سامراجی قوتیں کسی صورت ایک مضبوط مسلم ریاست کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکیں گی۔ اپنے مفادات کے لئے وہ پاکستان اور بھارت کو آپس میں لڑائیں گی ۔فرقہ پرستی اورمذہبی شدت پسندی بہت زیادہ ہو جائے گی ،یہ سوچ پاکستان کی نظریاتی اساس کو سخت نقصان پہنچائے گی ۔مولانا آزاد ابوالکلام کی یہ سوچ مسلمانانِ برصغیر کی اجتماعی سوچ نہیں تھی لیکن اب جبکہ قیام پاکستان کو بنے 74برس بیت گئے ہیں ،ملکی سیاسی و معاشی حالات کا جائزہ لیا جائے توان کی یہ باتیں کچھ غلط بھی نہیں لگتیں ایسا لگتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے مولانا آزاد کے خدشات و تحفظات کو غلط ثابت کرنے کے لئے کوئی شعوری کوشش کی ہی نہیں ۔ بلاشبہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نےٹھوس حقائق کے پیش نظر اس خطے کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست حاصل کر کے مسلم اُمہ پربڑا احسان کیا لیکن ہم دو قومی نظریے پر بننے والے اپنے ملک کو متحد نہ رکھ سکے اور مشرقی پاکستان الگ ہوگیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ وطن عزیز کا موجودہ نقشہ کافی حد تک مولانا ابوالکلام آزاد کی پیش گوئیوں پر پورا اترتا محسوس ہوتا ہے اور بانیان ِ پاکستان کے نظریات و افکار سے کوسوں دور ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکمران بچے کھچے پاکستان کی بقاو سلامتی کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کا رلائیں۔ فیصلہ ساز قوتیں اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسی قومی پالیسیاں مرتب کریں کہ جن کے تحت ملک میں صوبائیت،لسانیت اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں کمی واقع ہو اور ہم یہ ثابت کرسکیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کا دوقومی نظریے کی بنیاد پر ایک علیحدہ خود مختار ریاست بنانے کا فیصلہ درست تھا اور مولانا ابوالکلام آزاد سمیت کانگریسی مسلمانوں اور دوسرے مخالفین کے خدشات بلاجواز تھے ۔