• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری اشرافیہ جو ہماری قسمت اور مستقبل کی اصل مالک ہے،قوم کو کہاں ہانکنا چاہتی ہے۔ ہماری بدقسمتی ایسے لوگ بذریعہ سیاست، ذرائع ابلاغ ، حکومتی ادارے اور غیرحکومتی انجمنیں سیاہ و سفید کی مالک بن چکے ہیں۔ لبرل ازم ، فاشزم ، مغربیت اور احساس کہتری میں مبتلا عوام الناس کو ایسے تالاب میں کودنے پر کیوں مجبور کر رہے ہیں جہاں ان کی اپنی حمیت اور غیرت تار تارنظرآتی ہے؟کچھ ہفتے پہلے دردمند دوست اور سینئر بینکر امان اللہ خان صاحب نے دردمندی کے ساتھ پیغام بھیجا کہ ”بے حیائی اور بے غیرتی کے عفریت کے خلاف قلم اٹھانا دینی ذمہ داری بھی ہے اور قومی ضرورت بھی۔نوجوان نسل کو منظم طریقے سے بے راہ رو بنایا جا رہا ہے۔ فحاشی، عریانی معاشرے میں اشتہار بن چکی ہیں“۔میرے ہی نظریئے کے میرے انتہائی محترم بھائی اور سکہ بند دانشور نے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کو کیا مشورہ دے ڈالا؟مجھے نہیں معلوم سید صاحب برادرم کے خط کو درخور اعتناء سمجھتے ہیں یا نہیں البتہ ایسے مشورہ سے مجھے صدمہ ضرور پہنچا ہے۔ میرا ایک عمومی سوال کہ اسلامی معاشرہ میں آزادیِ معاشرہ یا لبرل سوسائٹی کی حدود کیا ہوں گی اوراس کا تعین کون کرے گا؟ مثلاًرقص کتھک ڈانس تک محدود ہو گا یا ”مادہوری ڈکشٹ “ معیار ٹھہرے گی۔موسیقی کی تانیں کس کس سر پر ٹوٹیں گی؟ اختلاط مردوزن کوکہاں تک گوارہ کرنا ہوگا؟
یا اللہ وطن عزیزکی ساری اقدار پر قابض یہ کیسی مخلوق ہے جو بظاہر مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئی اور آج خم ٹھونک کر اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکامات کے سامنے کھڑی ہو چکی ہے۔ تاویلات، توجیحات کا لامتناہی سلسلہ کہ ختم ہونے کو نہیں آرہا ہے۔احکاماتِ الٰہی کے نئے نئے معنی نکالنے اور نئی نئی موشگافیوں کا کاروبار عام ہو چکاہے۔ایسے ماحول میں نشوونما پانے والی نسل کا معاشرتی اور تہذیبی مستقبل متزلزل نظر آتا ہے یقینا بنیادی ذمہ داری ایسے گھروں پر عائد ہوتی ہے جہاں یہ نسل پروان چڑھ کر جوان ہو رہی ہے۔ ہڑبونگ ، شیشہ کلب، شباب اور شراب من بھاتے مشاغل ہیں۔مادہ پرستی معاشرے کا ناسوربن چکی ہے۔گھروں میں رزق ِ حلال نامی چیز سے تعارف نہیں۔ مالِ مفت کے بل بوتے پر جب آج کے نوجوان کروفر کے ساتھ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آتے ہیں تو نظر میں جچ جاتے ہیں۔ خام اذہان بگڑے بچوں کا ترنوالہ بن رہے ہیں۔سانحہ یہ نہیں کہ بگاڑ نے معاشرے میں اودھم مچارکھا ہے بلکہ اصل حادثہ یہ ہے کہ بناؤ اور اخلاقی اقدار کی ترویج کرنے والی قوتیں بھی بھٹک چکیں یا فروعی کاموں میں الجھ گئیں۔ اسلامی قدروں کے محافظ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں جبکہ بدتہذیبی گھروں کی دہلیزیں پار کر رہی ہے۔ معاشرے کے ناسوروں سے شکایت بنتی نہیں، جیسے باپ ویسے پُوت۔کچھ عرصے بعد ان لاڈلوں کو سیاسی ادارے چاہیے ہوں گے، بڑے کاروبار اور سرکاری نیم سرکاری اداروں کا کنڑول چاہیے ہو گا۔ وطن ِ عزیز تیزی سے بربادی کی طرف گامزن جبکہ یہ ایک ہی نعرہ میں مست
”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“
ڈھٹائی کی انتہا کہ تاویلات قرآن سے تلاش کرتے ہیں جبکہ حکم صاف اور واضح ہے ” اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ“ اس تنبیہ کے ساتھ کہ ”اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو“خدائے بزرگ و برتر نے آگے کیا فرمایا: ”لوگو! شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلووہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔تمہیں بدی اور فواحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جو اللہ نے ہر گز ۔نہیں کہیں“۔
ماہِ رمضان سے چند روز قبل ایک کھانے کی دعوت میں طوعاًو کرہاً جانا پڑا۔ طبیعت انتہائی مکدر ہوئی کہ وہاں شراب، ناچ اور اختلاط مردوزن رواجِ عام اور بدتہذیبی کا ایک ہنگام تھا ۔ اس دعوت کا خصوصی ذکر اس لیے کہ وہاں درجن بھر نمائندگان قوم کو گوڈے گوڈے مستی میں ڈوبے پایا۔ شکایت اپنے مقدر سے کہ اللہ کے مجرم اہل سیاست میں زیادہ ہوچکے اور قوم کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں ۔ اخلاق، قانون، آئین ِ پاکستان اور دین اسلام کی ایسی بے حرمتی (الامان والحفیظ)۔ایسے مشاغل جو آئین اور قانون کی گرفت میں آتے ہیں کے ساتھ اسمبلی اور حکومت کا حصہ بننے کا شوق سمجھ سے بالاتر۔ مطلب صاف ضمیر نہ احساسِ جرم۔
سلیمان بن مالک کے پاس ایک شخص آیا۔ گڑگڑایا ، یاامیر المومنین میری ایک بات برداشت کر لیں ۔ سلیمان بن مالک نے اجازت دی تو روانی سے بولا” میں محض اللہ کا حق ادا کرنے کی خاطر زبان کو تیز رکھتا ہوں ۔حکومت کے کرمفرما جو آپ کے دست وبازو ہیں۔ برائی اختیار کر چکے اور آپ کی دنیا کو اپنے دین کے عوض خرید چکے اور آپ کی خوشنودی کو اپنے پروردگار کی ناراضگی کے عوض۔ یہ مقتدر طبقہ اللہ کے معاملہ میں تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیرے معاملے میں خدا سے نہیں ڈرتے۔ یہ لوگ آخرت کے اعتبار سے لڑائی اور دنیا کے اعتبار سے دوستی۔ خدا کے لیے آپ ایسے لوگوں کو ملکی معاملات کا امین نہ بنائیں جن معاملات میں اللہ نے آپ کو اپنا نائب بنایا ہے۔ یہ لوگ اللہ کے احکاما ت کی خیانت میں مبتلا ہیں اور ان کے جرائم کے بارے میں آپ سے باز پرس ہوگی۔ اس لیے آپ اپنی آخرت خراب کرکے ان کی دنیا کو درست کرنے کی فکر نہ کریں۔ کیونکہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عیب دار شخص وہ ہے جو اپنی آخرت کو دنیا کے عوض بیچ ڈالے۔ یاامیر المومنین میری بات پلو سے باندھ لو کہ یہی تیرے لیے نفع کا سودا ہے“۔
ہماری مقتدر اشرافیہ پوری تندہی سے بدی اور فواحش کو عام کر رہی ہے۔ فحاشی اور بدکاری بتدریج معاشرے کو اپنے رنگ میں رنگ رہی ہے۔ مغرب نقالی میں ساری حدود پھلانگ چکی ہے۔ مغربی معاشرہ استوار ہی جنسی اجناس کی ترویج واشاعت پر ہے۔ پڑوسی ہندو معاشرہ بغیر قباحت کے مغربی تہذیب کو طرہ امتیاز بنا چکا ہے کہ اللہ کی بتائی ہوئی تہذیب و تمدن کی حدود کی نعمت سے یکسر محروم۔ ہمارے ہاں ایسی معاشرت کا پنپنا یا حکومتی سطح پر اور ذرائع ابلاغ ِعامہ کے ذریعے تقویت دینا،نہ تیتر بن پائیں گے نہ بٹیر ۔ مغرب زدہ مخلوق عوام الناس میں اجنبی جانی جاتی ہے لیکن طاقت ور نے سوسائٹی کو اپنے پنجہ استبداد میں لیا ہوا ہے ۔
پرائیویٹ یونیورسٹیاں اور اسکول مادرپدر آزاد ہوچکیں۔ تعلیمی ادارے اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ نوجوانانِ قوم ملت کے مقدر کا ستارہ نہ بن پائیں۔ حرام رزق نے تہلکہ مچا رکھا ہے حرام کھائیں او ر معاشرت حلال اور پاکیزگی پر استوار ہویہ کیسے ممکن ہے۔ احساسِ کہتری کا شکار مغرب زدہ طبقہ سر کے بل الٹا کیوں نہ لٹک جائے معاشرے کی اسلامی اقدار کو تو متاثر نہ کر پائے گا البتہ بدقسمت ملک مزید انارکی کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔
تازہ ترین