• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کام یابی ،ناکامی ،اُمید ونااُمیدی ،یقین ،بے یقینی کے حصار میں پاکستان نے اپنے قیام کی ’’74‘‘ بہاریں دیکھ لیں ۔عوام کی زندگی کا سفر بھی اُتار چڑھائو ،کام یابی ،ناکامی کے چکر میں آگے بڑھتا رہا ۔وقت تو دکھائی نہیں دیتا ،مگر پھر بھی بہت کچھ دکھا دیتا ہے ۔یہ ہم نے بھی دیکھا کہ کچھ اپنی ذات تک محدود رہے تو کچھ نے اعلٰی تعلیم حاصل کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں قدم رکھا ،جہاں کام یابیوں نےان کے قدم چومیں وہیں مایوسی سے بھی دوچار ہوئے۔ایسے میں غلطیوں کامجموعہ بعد میں تجربہ کہلاتا ہے ،جو کام یابی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

دنیا میں کام یابی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ماضی سے مت چمٹے رہیں ۔بے شک ماضی کی کام یابیوں پر فخر کریں لیکن اپنی تاریخ کو بھی یاد رکھیں ۔فقط ایک لمحے کے لیے ٹھنڈے دل سے یہ سوچیں کہ آج وطن کا یہ حال کسی نے کیا ہے …؟جو غلطیاں ہم اپنے ملک میں کرتے ہیں وہ دیارِ غیرجاکر کیوں نہیں کرتے، وہاں پر کیوں ان کے بنائےہوئے اُصولوں اور قوانین کی پاسداری کرتے ہیں ۔اگر اُصولوں ،قوانین کی پاسداری ہم نےیہاں شروع دن سے کی ہوتی تو آج ہمارے ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔آج جب پاکستان 74 سال کا ہو گیا ہے تو کسی لمحے سوچا کہ آپ نے جس شعبے میں قدم رکھا، اُس میں کتنی کام یابیاں حاصل کیں یا ناکامیوں کاسامنا کرناپڑا ۔

اپنے آپ سے صرف تین سوال پوچھیے کہ ،آج جس شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں ،اُس میں سب سے بڑی کام یابی کیا ملی ؟ شعبے کی بہتری کے لیے کیا کیا ؟مایوس کب اور کیوں ہوئے؟ اور آج کو کس نظر سے یکھ رہے ہیں ؟آپ کے شعبے میں کیا ہونا چاہیے تھا جونہ ہوسکا اور ایسا کیا کیا جائے کہ ہم ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکیں ؟آپ جواب سوچیں لیکن ہم نے بھی زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیات سے بھی یہی سوالات کیے ،انہوں نے جو جوابات دیے وہ آپ بھی پڑھیں ۔

ناصرہ جاوید اقبال ،جسٹس (ر)

74 سالوں میں قانون کے شعبےمیں سب سے بڑی کام یابی یا کارنامہ یہ ہے کہ خواتین کے لیے علیحدہ قوانین نافذ کرائے گئے،تاکہ ان کو جلد انصاف مل جائے۔1961 ء میں مسلم فیملی لاز آرڈی نینس بنا،1964 ء میں فیملی کورٹ ایکٹ بنا ،جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ خواتین بھی جج بنیں گی ،پھر ایسا ہی ہوا ۔اس کورٹ میں بغیر کوئی فیس لیے خواتین کے تمام مسائل حل کرنےکی کوشش کی جاتی جن کی حد چھ ماہ ہوتی ہے۔یعنی چھ مہینے میں مسائل حل کرنا ضروری ہیں ۔ 

مایوس کن بات یہ ہے کہ ہمارے پاس لاز اینڈ جسٹس کمیشن توہے ،جس کا کام مقننہ کو مشورے دینا ہوتا ہے کہ وہ کس طر ح قانون سازی کریں۔ہماری اسمبلیوںمیں قانون میں ترمیم ہی نہیں کی جاتی جب کہ قانون میںاس کی اشد ضرورت ہے ،کیوں کہ یہ 1860 ء کے قوانین ہیں جن کو انگریزوںنے بنایاتھا ۔آج 2021 ء چل رہا ہے ۔تقریبا ًان قوانین کو بنے ہوئے ڈیڑھ سوسال ہو گئے ہیں۔اب ان قوانین کو لازمی تبدیل کرنا چاہیے ،کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیزمیں تبدیلی آئی ہے ۔

لیکن ہم قوانین کو اپنے مسائل کے مطابق نہیں بدل سکے ۔اس کی سب سے اہم وجہ ہماری مقننہ کا توجہ نہ دینا ہے ۔اب اس دور میں ہمیں اپنے نوجوانوں کو ہمت دلانی ہے ،ان کو یہ تر بیت دینی ہے کہ وہ اس ملک کے قوانین تبدیل کریں وہی ہیں جو اختراعی کام اور بگڑے ہوئے قوانین کو صحیح کرسکتے ہیں ۔آزادی کے 74 سال گزرنے کے باوجود آج ہماراترقی کی راہ میں شامل نہ ہونے کی وجہ اس ملک میں کرپشن ہے ۔اگر کرپشن ،ناانصافی اور بے ایمانی ختم ہو جائے تو ہم بہت آسانی سے ترقی کی راہ میں دوڑ سکتے ہیں ۔

ڈاکٹر معصومہ حسن

(چیئر پرسن: پاکستان انسٹیٹیوٹ ـآف انٹرنیشنل افیئرز، پریزیڈنٹ : عورت فاؤنڈیشن پاکستان )

ڈاکٹر معصومہ حسن کہتی ہیں کہ ذاتی طور پر اپنی کسی ایک کامیابی یا کارنامہ کی نشاندہی کرنا مشکل ہے۔ ملک کے حوالے سے دیکھیںکہ 1998ءکا ایٹمی دھماکا ہماری نمایاں کام یابی تھا۔اس کے علاوہ، پاکستان نے شروع سے ہی ایشیاء اور افریقا کے ان ممالک کی آزادی کی مہم میں ان کا ساتھ دیا، جو نو آبادیاتی نظام سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔پاکستان منصفانہ عالمی معاہدوں کا رکن بنا اور آج بھی ان چند ممالک میں آگے ہے، جو اقوامِ متحدہ کی امن فورس کا حصہ ہیں،جس میں پاکستان کی عورتیں بھی شامل ہیں۔

ان 74 سالوں میں سب سے بڑی مایوسی ملک کا دو لخت ہونا تھا یعنی 1971میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی جو ایک عالمی معاملہ بن گیا تھا۔دوسری مایوسی یہ ہے کہ باوجود اقوام ِ متحدہ کی مثبت قراردادوں کے ، پاکستان کشمیر کا تنازعہ حل کروانے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکا۔پاکستان نے عالمی امن کے لئے ہمیشہ کوشش کی۔ آج پاکستان ایک ذمہ دار نیوکلیر قوت ہے۔ اقوامِ متحدہ کے 193ممالک میں صرف نو نیوکلیر قوتیں ہیں اور یہ طاقت پاکستان کو عالمی اور علاقائی سطح پر سیکیورٹی دیتی ہے، باوجود اس کہ پاکستان کی کوشش رہی ہے کہ جنوبی ایشیاء کونیوکلیئرتوانائی سے پاک علاقہ قراردیاجائے۔ 

میری نظر میں پاکستان کو اپنے مفاد میں ایک ایسی خارجہ حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے، جس کے ذریعے وہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک سے تعلقات میں ایک توازن رکھ سکے۔پاکستان کی حکومتوں کو ایسی حکمتِ عملی بنانی چاہیے تھی، جس کے ذریعے غربت کا خاتمہ ہوتا۔تعلیم عام کی جاتی ،صحت پر توجہ دی جاتی لیکن یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ کبھی بھی تعلیم اور صحت پر خاطر خواہ خرچ نہیں کیا گیا ۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے عوام کی تعلیم ’صحت‘ سوشل سیکیورٹی اور رہائش پر بھر پور توجہ دی ہے۔ ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے۔ 

جو بھی حکومت برسراقتدار ہو، اسے ان قوانین اور حکومتی روایات کا احترام کرنا چاہیے جن پر ماضی میں طویل عرصہ کے دوران ایک اتفاق ہوچکا ہے، تاکہ حکومتی عمل کو استحکام مل سکے۔ یہ بھی ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان قدامت پرست اور ترقی پذیرقوتوں کو معاشرے میں جگہ نہ بنانے دے جن کی وجہ سے پاکستان ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا اور عالمی برادری میں عزت کھو دے گا۔ نیز پاکستان کو عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کرنی چاہیے اور انہیں تحفظ دینا چاہیے۔ عوام دوست حکومتیں عوام کو قانون کےذریعے انصاف فراہم کرتی ہیں ۔

مہتاب اکبر راشدی

(سابق پارلیمینٹیرین، بیوروکریٹ ، استاد)

مہتاب اکبر راشدی کہتی ہیں ،مجھے بہت افسوس سے یہ کہنا پڑ رہاہے کہ ان 74 سالوں میں سیاست کے شعبے میں کوئی اہم کارنامہ یا کام یابی کچھ نظر نہیں آتی ۔نیزہم نے کسی بھی سطح پر کوئی اہم کام کیا ہی نہیں ،جس کو دیکھ کر ہم بہت خوش ہوتے کہ یہ منصوبہ ہماری کام یابی کا راز ہے ۔یہ بہت مایوسی کن بات ہے کہ جب ہم پیچھے پلٹ کر اپنےملک کو دیکھتے ہیں تو ہمیں کوئی بھی کام یابی نظر نہیں آتی ،سوائے اس کے کہ 71ء کے بعد جو آدھا پاکستان بچا،اس کو ابھی تک بچائے ہوئے آرہے ہیں ۔میرے خیال میں اب تک کی یہی سب سے بڑی کام یابی ہے ۔ 

جہاں تک مایوسی کی بات ہے میں سمجھتی ہوں کہ تمام ادار ے چاہے وہ سیاسی ہوں یا عدالتی یااقتصادی ،ہمیں کسی پر بھروسہ نہیں رہا ،کیوں کہ کبھی بھی کوئی عوام کی اُمیدوںپر پورا ہی نہیں اُترا ۔اسی لیے اعتماد کا فقدان ہمیشہ سےرہا ہے ۔ اورآج بھی یہی صورت ِحال ہے ۔نہ کبھی وقت پر کسی کو انصاف ملا ۔نہ وقت پر کسی کا احتساب کیا گیا ۔آج کے پاکستان کو میں اس نظر سے دیکھتی ہوں کہ یاتو کوئی اسے بنا دے یا پھر بھول جائے کہ پاکستان کا کچھ ہو سکتا ہے ،کیوں کہ آزادی کے اتنے سالوں بعد بھی ہمارا ملک آج تباہی کے چوراہے پر کھڑا ہے۔

ہمیں اب ایسی پالسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے ،جس کے ذریعے ملک کی جو ٹرین پٹری سے اُتری ہوئی ہے وہ پٹری پر آجائے ۔ہمیں اپنےپڑوسی ممالک سے سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح اپنے ملک کو چلانے کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں ۔ایسی منصوبہ بندی کی جائے ،جس کا رُخ بہتر مستقبل کی طر ف ہو ۔ان74 سالوں میں ہر کام پوری ایمانداری سے ہونا چاہیے تھا ،جو کہ نہیں ہوا ،ہرنسل نے دوسری نسل کو دھوکا دیا ،جھوٹ بولا ،بے ایمانیاں کیں ،جس کے باعث آج کی نوجوان نسل کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ہر کام کی بنیاد بہت کمزور تھی اور ہےطویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کی گئ ۔پالیساں ایسی ہونی چاہیں کہ جس پر لیڈرشب بدلنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے۔

ہمیشہ سے ہم نے یہی کیا ہے کہ آج کا دن کسی طر ح گزر جائے کل کی کل دیکھیں گے ،اسی چیز نے ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ہمیشہ ہم نے حال کی فکر کی ہے،مستقبل کی تو کبھی پروا کی نہیں ۔ آج مشکلات میں گھیرے رہنے کی اہم وجہ بھی یہی ہے ۔ہم وہی کےوہی کھڑے رہ گئے بلکہ اس سے بھی پیچھے چلے گئے ۔ہمارے پاس دوچیزوں کی بہت کمی ہے ایک ایمانداری اورد وسری لیڈر شب ،جس دن یہ دونوں چیزیں صحیح ہوجائیں گی ،اُس دن ہمارا ملک ترقی کی راہ پر دوڑنے لگے گا۔پاکستان کو ترقی یافتہ بننے کے لیے ہمیں اپنے جوڈیشل نظام کو صحیح کرنا پڑے گا ،میرٹ کو بہتر بنانا ہوگا ۔تمام صوبوں کے لوگوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا ہوگا ۔زبان کی تفریق کو ختم کرنا ہوگا۔ 

ہم صرف کہنے کی حدتک ایک قوم ہیں ،اصل میں تو ابھی بھی ایک قوم نہیں بن پائے ہیں ۔صرف قومی ترانوں میں کہنے سے ایک قوم نہیں بناجاتا ۔اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ترقی کی راہ پر چلنے کے لیے ہمیں ایک قوم بننے ،تعصب ختم کرنے اور ایمانداری سے ملک کے لیے پالیساں بنانے کی اشد ضرورت ہے،تب کہیں جاکر ہم ترقی کی منزل کی طرف گامزن ہو ںگے ۔ اور آنے والی نسل کو ایک بہتر ملک دیں گے ۔

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم

(ماہرِتعلیم ،اسکالر،شاعر)

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ ،پاکستان کے 74 سالوں میں تعلیم کے شعبے میں کوئی اہم کارنامہ تو نہیں ہوا ہے ،البتہ کوشش ہمیشہ جاری رہی ہے کہ ابتدائی اور اعلٰی تعلیم میں پیش رفت کی جائے ۔مایوس کن بات یہ ہے کہ جس طر ح سے ہمیں اپنے تعلیمی نظام پر توجہ دینی چاہیے تھی اس طرح نہیں دی گئی ۔آزاد قوم کی حیثیت سے ہم نے تعلیمی میدان میں کوئی پیش رفت نہیں کی ۔ویسے توپاکستان بننےکے بعد ہمارا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم اپنے بچوں کو معیاری ابتدائی تعلیم سے بہرہ مند کرتے اور اس کے بعد اعلٰی تعلیم کی طرف جو راستےنکلتے ہیں ان پر چلاتے ،مگر افسوس ایسا کبھی نہیں ہوا۔

اس میں ہمیشہ یہ دشواری پیش آتی رہی کہ منصوبہ بندی کے باوجود جو پالیساں بنتی تھیں ،اس میں تعلیم کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جی ڈی پی کی جو رقومات مہیا کی جانی چاہیے تھیںوہ کبھی نہیں کی گئیں ، پاکستان کی تاریخ ہے کہ تعلیم کا بجٹ کبھی ایک عشاریہ چھ سے نہیں بڑھ سکا، صرف ایک دفعہ دو عشاریہ چھ ہوگیا تھا لیکن بعد میں وہ پھر نیچے چلا گیا ،جب کہ پوری دنیا میں جی ڈی پی کا چار فی صد سے زیادہ حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا جاتا ہے اور اب توشاید یہ بڑھ بھی چکا ہے ۔پاکستان میںکم ازکم چار فی صد تو تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے ،جس میں 75 فی صد ابتدائی تعلیم کے لیے اور 25 فی صد اعلیٰ تعلیم کے لیےہو۔

ابتدائی تعلیم کا جو نظام سر کاری سطح پر ہونا چاہیے تھا وہ ہم نے پرائیوٹ سکیٹر کو دے دیا ،جن کو وہ اپنے حساب سے چلاتے ہیں اور ان کے اخراجات کابوجھ اُٹھانا سب کے بس میں نہیں ہے ۔پاکستان سے مفت تعلیم دینے والا نظریہ تو مکمل طور پر ختم ہی ہوگیا ہے ۔ اس طرح تو ہم اپنی نسل کو تعلیم یا فتہ نہیں بنا سکتے ۔کچھ تھوڑی بہت ترقی اور بہتری یونیورسٹی کی سطح پر ہوئی ہے ۔اعلٰی تعلیم کے سلسلے میں پاکستان نے پھر بھی کچھ بہتر کام کیا ہے کہ سرکاری جامعات کی فیس اتنی زیادہ نہیں ہے ۔لیکن اب یونیورسٹیاں کھولنے کا ایک کھیل جاری ہے کہ یہ ہر جگہ کھولی جارہی ہیں لیکن ان کے نظام پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔

ہمیں یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ جامعات کھولنے سے کچھ نہیں ہو گا جب تک منصوبہ بندی پر تو جہ نہیں دی جائے گی ۔آج بھی ہمارے ملک میں ناخواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے ۔پاکستان کا تشخص علم اور آگاہی سے بنے گااور ہمیں اسی کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی مربوط منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے اور جو کی گئی ان کے نتائج پر کبھی غور نہیں کیا کہ اس میںہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں یا کمی رہ گئی ۔پانچ سالہ منصوبے تو بہت بنے لیکن ان پراس طرح سے عمل در آمد نہیں ہوا ۔

اب ملک کو صحیح سمت میں گام زن کرنے کا طر یقہ یہی ہے کہ علم و آگہی کو وقت اور ضرورت کے لحاظ سے آگے لے کر چلیں ،جوآنے والی نسل کے لیے کار آمد ثابت ہو۔مثال کے طور پر یہ سوچیں کہ آئندہ 50 سالوں میں ہمیں کس طرح تعلیمی نظام کو لے کر چلنا ہے اور جو شعبے پاکستان میں نہیں ہیں یاجن شعبوں میں ہم کمزور ہیں ان پر خاص توجہ کس طرح دینی ہے۔ہمیں knowledge based society بننے کی اشد ضرورت ہے ،تب کہیں جاکر ہم ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکیں گے۔

مظہر عباس

سنیئر صحافی ،معروف تجزیہ نگار،کالم نگار

مظہر عباس نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا کہ 74 سالوں میں صحافت کے شعبے میں اہم کارنامہ یہ ہے کہ ہم کتابت سے ڈیجیٹلا ئزیشن کی طرف چلے گئے ہیں ،جس سے ہمیں بہت فائدہ ہوا کہ اطلاعات فوری طور پر مل جاتی ہیں ،تصاویر برو قت مل جاتی ہے ۔کمپیوٹرئزیشن ،صحافت کے شعبے میںبہت بڑا انقلاب ہے ۔مایوس کن بات یہ ہے کہ صحافت کی دنیا سے مدیر کا ادارہ ختم ہو گیا ہے ،جو کہ صحافت کی سب سے بڑی کام یابی ہوتی تھی ،آزادی ِصحافت کا سب سے بڑا کریڈٹ’’ ایڈیٹر‘‘ کو جاتا تھا وہ اتنا بہ اختیار ہوتا تھا کہ ہر فیصلہ کرنے اورذمہ داری لینے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔

ایڈیٹر پوری ٹیم کا کپتان ہوتاہے لیکن آج کی صحافت بغیر کپتان کے ہے ۔نیز ایڈیٹر کا انسٹی ٹیوشن ختم ہونے سے صحافت کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے ۔اور یہ نقصان ناقابل ِتلافی ہے ۔آج اگر ایڈیٹرز ہوتے تو صحافت میںجن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ نہیں کرنا پڑتا ۔اس سے یہ شعبہ بہت بری طر ح متاثر ہوا ہے اور دوسراصحافت پر مسلسل قدغن لگائے جارہے ہیں ۔یعنی ایک طرف تو ہم صحافت کو پھیلتے ہوئے دیکھے رہے ہیں ،پرنٹ سے الیکٹرانک ،الیکٹرانک سے سوشل میڈیا اور دوسری ہی جانب اس کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر روز کوئی نہ کوئی نیا قانون سامنے لیا جارہا ہے ۔

اس کے سبب آزاد اور ذمہ دارنہ صحافت کا تصور ختم ہوگیا ہے۔آج بھی ہم اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں ،کیوںکہ بد قسمتی سے ہم نےاپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا ۔اسی لیے آج قوم کنفیوز ہے ،اور نہ ہی صحیح طور پر اپنی سمت کا تعین کرسکی ،جب تک ہم صحیح سمت کا تعین نہیں کریں گے ،اس وقت تک صحیح راستے پر نہیں چل سکتے ۔پہلےہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمیں اپنے ملک کو لے کر کس سمت میں جانا ہے ۔افسوس کی بات ہے کہ ہم 74 سال میں بھی پاکستان کے لیے صحیح سمت کا تعین نہیں کرسکے ۔

اب ہمیں صرف اپنے تعلیمی نظام کو صحیح کرنا ہے ،کیوں کہ ہم تعلیم کی دوڑ میں بہت پیچھے چلے گئے ہیں ۔1944 ء میں قائداعظم نےمسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے ،جن چار شعبوں کی بات کی تھی ،ان میں اول نمبر پر تعلیم تھی ،دوسرے نمبر پر معیشت تھی ،تیسرے نمبر پر معاشرہ تھا اور چوتھے نمبر پر سیاست تھی ۔قائداعظم نے کہا تھا ،’’اگر ہم تعلیم پر توجہ دیں گے تو باقی تین چیزوں میں خود بہ خود ترقی کرتے جائیں گے ۔لیکن بدقسمتی سےہم نے اپنے ملک کو تعلیم میں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔آج بھی دو کروڑں سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب نہ تونصاب بنانے والے صحیح ہیں ،نہ نصاب پڑھانے والے ۔جب تک ہم پرائمری ،سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن کا معیار صحیح نہیں کریں گے ،اُس وقت تک ہم اپنے معاشرے کوبہتر نہیں بنا سکتے ۔ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے تعلیمی معیار پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔

فاطمہ حسن

(ادیب )

فاطمہ حسن کا کہنا ہے کہ74 سالوں میں ادب کے شعبے میں سب سے نمایاں کام یابی یہ ہے کہ خواتین کی بڑی تعداد نے ادب میں اپنا مقام بنایا ،بے شمار کتابیں شائع ہوئیں۔ ایک ادیب ،مصنفہ اور کام یا ب خاتون کے طور پر اپنی شناخت بنائی۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب ادب کے شعبے میں خواتین کا آنامحال تھا، یہاں تک کہ تاریخ ِادب میں بھی ان کاکوئی ذکر نہیں تھا لیکن آج ادب کی تاریخ خواتین کی تحریروں کے بغیر ممکن نہیں ۔لیکن اس کے ساتھ ایک مایوسی بھی ہے کہ اب ادب کے قاری نہیں رہے ،آج بچے ادب کو اس طر ح سے نہیں پڑھ رہے ،جس طر ح ہم اپنے وقتوں میں پڑھتے تھے ،ادب کی کتابیں ڈھونڈتےتھے،پڑھ کر ان پر گفتگو کرتے تھے ،مگر اب وہ ماحول نظر نہیں آتا ۔

74 سالوں میں ہونا تویہ چاہیے تھا کہ، ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنا تے اور ایسی تعلیم بچوں کو دیتے جو علم کے ساتھ دانش بھی پیدا کرتی ۔تعلیم برائےنوکری نہیں ،تعلیم برائے ملازمت نہیں ،تعلیم برائے پیشہ نہیں بلکہ تعلیم برائے ذہنی وسعت ، دورس نگاہی ،پیش بینی اور دانش کی نگاہی کے لیے ہوتی تو ایسے ذہن پیدا ہوتے جو آنے والے وقتوں کے لیے منصوبہ بندی کرتے اور یہ دیکھتے کہ ہمیں ملک وقوم کو ترقی کی راہ پر چلانے کے لیے کن مقامات سے گزرنا ہوگا لیکن ایسے لوگ پیدا نہیں ہوئے ،جس کانتیجہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح جاہلانہ رویے پرورش پا رہے ہیں۔ 

اب ہم صرف ایک صورت میں ترقی کرسکتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام بہتر بنایا جائے اور ملک کے بچوں کی رسائی علم کے شعبے میں ہوسکے ۔دوسرا یہ کام کرنا ہوگا،ملک میں جو سفارشی کلچر ہے اُس کو ختم کیا جائے ،جس شخص کو جس مقام پر ہونا چاہیے وہ وہاں نہیں بلکہ اس کی جگہ کوئی نالائق شخص بیٹھا ہوتا ہے ،جنہوں نے اداروں کو تباہ کردیا ہے، جب خود غرضی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے ،توجہالت تباہی کی طرف لے جاتی ہے اور ہمارے ملک میں یہی کچھ ہوا ہے ،اگر تعلیم پر شروع سے ہی توجہ دی جاتی تو ایسا نہ ہوتا ۔ایک اور اہم بات یہ کہ ملک میں land reform نہیں ہیں،اگر یہ ہوجاتیں تو آج خود غرضی اور نفسانفسی کا دور نہیں ہوتا ۔خضرت علی ؓنے فرمایا تھاکہ ’’کفر کی حکومت چل سکتی ہے ،لیکن ظلم کی نہیں ‘‘ اور آج سب سے بڑا ظلم پاکستان میں ناانصافی ہے،کسی بھی سطح پر انصاف کا نظام صحیح نہیں ہے۔ تعلیمی نظام میں بھی طبقاتی نظام ہے،جس کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔

سلیمہ ہاشمی

(سابق ڈین، این سی اے،استاد ،پینٹرآرٹسٹ)

آرٹسٹ سلیمہ ہاشمی ،کہتی ہیں 74سالوں میں ہماری سب سے بڑی کام یابی یہ ہے کہ بغیرکسی سرکاری سپورٹ یا سر پرستی کے پاکستان کے آرٹسٹ اور پاکستان کا آرٹ اس وقت پوری دنیا میں جو تدریجی مومنٹ ہے جونئے قسم کا آرٹ ہے ،اس میں پاکستان پیش پیش ہے ۔دنیا میں آرٹ کی جو اہم نمائشیں ہیں ،ان میں پاکستان کا آرٹ سب سے آگے ہے۔چار ،پانچ پاکستانی آرٹسٹ ہیں ،جنہوں نے پوری دنیا میں اپنی پہچان بنائی ،لوگ ان کو جانتے ہیں اور کافی حیران ہوتے ہیں کہ پاکستان میں مٹھی بھر آرٹ کے ادارے کس طرح دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں ۔

یہ کام تمام آرٹسٹوں نے اپنی کاوش سے کیا ہے ۔ہمارے آرٹ میں ہماری ثقافت ،روایت اور تہذیب کے رنگ جھلکتے ہیں ۔آرٹ ایک گہرا سمندر ہے ،جس میں ہر لہر مختلف رنگ لیے چل رہی ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ مایوس کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں آرٹ کی نمائش کے لیے کوئی سر کاری ہال نہیں ہیں ۔اسلام آباد میں جو نیشنل آرٹ گیلری ہے اس میں جو چند نامور آرٹسٹ کا کام نظر آتا ہے، وہ بھی فیض کے زمانے میں خریدا گیا تھا ۔اسی طر ح لاہور میں جو آرٹ گیلری ہے،وہاں پر بھی 85 فی صدکام وہ ہے جوخریدا گیا ہے ۔ پچھلے بیس، تیس سالوں میں پاکستان نے کیا کیا ،اس کاکوئی ریکارڈ کسی بھی آرٹ گیلری میں نہیں ہے ۔ہماری نوجوان نسل کہاں جاکر ہمارے آرٹسٹوں کا کام دیکھے ۔

آج مجھے سے کوئی بچہ یہ پوچھتا ہے کہ مجھے فلاں آرٹسٹ کا کام دیکھنا ہے تو میں اس کو کیاجواب دوںکہ کہاں جاکر دیکھو،یہ کام تو سرکا رکا ہوتا ہے کہ وہ ہر بڑے شہر میں ایک آرٹ گیلری بنائے جہاں تمام آرٹسٹوں کے کام کو آویزاں کیا جائے ،تاکہ نئی نسل اس کو دیکھ کر خوش ہو ۔اور نئے آرٹسٹوں کا کام بھی وہاں آویزاں کیا جائے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے اپنے آرٹ کو اس طر ح اہمیت نہیں دی ،جس طرح دینی چاہیے تھی ۔تخلیقی کاموں کو سرپرستی ملتی جو کہ نہیں ملی۔ثقافتی عمل ،ثقافتی کاموں کو وہ اہمیت نہیں دی جوبہ طور قوم ہمیں دینی چاہیے تھی ،ہم نے اپنی نظریں دوسری طرف کرلی تھیں ۔ہم نے اپنے آرٹسٹوں کو وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا ۔

اب ہمیں چاہیے کہ اپنے آرٹسٹوں کی کاوشوں کو سراہیں،جو ان کا مقام ہےوہ ان کو دیں ۔اورنوجوان نسل کو چاہیے کہ اپنے استاد کی ہمیشہ عزت کریں ۔تب کہیں جاکر ہم ترقی کی راہ پر چل سکیں گے ۔ 74 سال تو جیسے تیسے گزر گئے۔ 75 سال میں قدم رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے صرف سوچنا نہیں کچھ کرنا بھی چاہیے ،ایسا کچھ جس سے پاکستان کا نام روشن ہو ۔یہ خیالات تو چند نامور شخصیات کےہیں۔ آپ کو بھی کامیابیاں ملی ہوں گی حالات سے مایوس بھی ہوئے ہوں گے ،اس کے ساتھ آنے والے کل کو کیسے دیکھتے ہیں ،اس بارے میں ضرور سوچتے ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ضرور سوچیں اور اپنے ساتھ پاکستان کے لیے کچھ ایسا کر دکھائیں کہ اگلے سال فخر سے کہہ سکیں کہ ہم نے کام یابی ہی کام یابی حاصل کی ۔مایوس انہیں ہوئے ۔اُمید کے دیے جلائے رکھے ۔پاکستان زندہ باد۔

تازہ ترین