• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدیوں پر محیط ہو یا دو دن کی بات، سفر سفر ہوتا ہے، منزل اپنی جگہ تاہم سفر میں حرکت اور سمت کا جائزہ تو ہر لمحہ لینا پڑتا ہے۔ دیکھنا پڑتا ہے کہ ولاسٹی درست ہے اور کہیں سفر دائروں میں تو نہیں بکھر گیا۔ درست سفر امید کا دوسرا نام ہوا کرتا ہے، وہ امید جو رفتہ رفتہ یقین میں بدل جاتی ہے۔

تحریک پاکستان کے سفر میں ہم کہیں دوڑ کر پُرجوش تو کبھی آبلہ پا تھک ٹوٹ کر بھی چلے، رکے نہیں، آگے بڑھتے رہے اور قیامِ پاکستان کی منزل جب پاؤں کے نیچے آئی تو سربسجود ہوئے کہ منزل نے قدم چوما۔ جانے کیا ہوا کہ استحکامِ پاکستان کے سفر میں باوجود اِس کے کہ ریاست نے خوشبو کی طرح پذیرائی کی، ہم وہ آشنائی و مسیحائی کا بھرم نہ رکھ سکے جسے کو بکو ہونا چاہئے تھا۔ جنہیں ہر طرف جیوے جیوے پاکستان اور دل دل، جان جان پاکستان کی شمعیں فروزاں کرنی تھیں، انہوں نے دوڑ تو تیز تر بھی لگائی مگر خرگوش کی طرح اور خوش فہمیوں کی گود میں سوئے بھی تو خرگوش کی طرح۔ ریاست پھر دروازے کھول کر منتظر رہی کہ آؤ کوئی میرے دامن کو بناؤ اور اصلاحات سے ہم کنار کردو۔ یہاں تو آنگن ہموار تھا پھر بھی ناچا نہ گیا اور رادھا نو من تیل کا بہانہ کرتی رہی۔ ریاست کے عام آدمی نے کس کس مہان اور مہربان سے امیدیں نہ لگائیں، عوام نے تو ہمیشہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں کو ملحوظِ خاطر رکھا، کچھ نادان، قدر دان و سیاستدان اور ’’دوست‘‘ ہی ایسے ملے کہ جنہوں نے چند کلیوں پر قناعت کا وتیرہ ہی نہ چھوڑا:

قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے

رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے

رہبر و رہنما کی یہ جھلک تاریخِ پاکستان کے فلک پر ماہتاب کی سی دمک رکھتی ہے کہ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی دلیل اور عزم پر لوگوں کو اِس قدر پختہ یقین تھا کہ تحریک پاکستان کے دور میں انگریزی کا ایک لفظ بھی نہ جاننے والے تقریر کے دوران ہمہ تن گوش رہتے، شاید آنکھ سے بھی سنا جا سکتا ہے اور سینکڑوں میل دور بسنے اور کبھی نہ دیکھ اور سن پانے والے بھی قائداعظم کو اپنی فکری بصیرت اور بصارت سے معظم و محترم پاتے!

اب یہ عالم ہے کہ ہر کوئی پریشاں ہے کہ وفا کے موتی کہاں سے چنے۔ کسی کو وعدوں کا چہرہ نہیں ملتا اور کہیں آنکھیں نہیں ملتی۔ عوام کو آس دے کر اور آنکھوں میں امید کی شمعیں جلانے والے غائب ملیں، جب زندگی محض قول ہی قول کے سراب اور گرداب میں پھنسی ہو، چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے عمل نہ ملے تو کوئی کیا کرے؟

اِس سال پیارے پاکستان کا قدم پلاٹینم جوبلی میں آگیا۔ طے ہو جانے والا 74سالہ سفر بتاتا ہے سقوطِ ڈھاکہ ہوا تو جوہری توانائی کے حامل بھی تو ہوئے، موٹروے کی سوچ سے موٹروے کی تعمیر کے علاوہ بہت اہم بات یہ کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے مقابل موٹروے پولیس اور موٹروے نظام بھی تو متشکل ہی نہیں ہوا۔ اُس نے تسلسل بھی پایا۔ مطلب یہ کہ جہاں دوڑ اور عمل کی یکجائی ہوئی وہاں جمہوریت کے گلشن میں پھول بھی کھلے اور موٹروے سا عالمی منظر نامے بھی نظر آیا۔ جہاں ننھی سی دوڑ کے بعد سو گئے تو وہاں اسٹیل مل سے ریلوے تک ناکام ہوئے اور یوٹیلیٹی اسٹورز تک سفید ہاتھی۔ جب جب فکر مندی رہی تو 1973سا آئین بنا، 18ویں ترمیم نے جنم لیا، بےنظیر انکم سپورٹ کو عالمی پذیرائی ملی اور این ایف سی ایوارڈ کو تقویت اور انصاف ملا علاوہ ازیں سی پیک تک نے دستک دی۔ جہاں جہاں فکری طلاق یافتہ ہوئے وہاں وہاں بنجر ہوئے اور انجینئرڈ ڈیمو کریسی نے آمریت کا دریچہ کھولے رکھا۔

جانے کب ہم اپنے قلوب و اذہان میں تبدیلی لائیں گے اور اِس تھیوری سے کنی کترائیں گے کہ دیکھیں جی فلاں ملک کی یہ مستحکم تہذیب اور وہ پرانی تاریخ ہے سو اس کا مقابلہ و موازنہ کیسا۔ ملک بھر کے کسی وائس چانسلر، محقق، بڑے بیوروکریٹ، ممتاز لیڈر سے بات کرلو تو وہ کہے گا امریکہ و برطانیہ و جرمنی کی تاریخ تو دیکھو، اس لئے ان کی یونیورسٹیاں، ریسرچ، سسٹم مضبوط اور جمہوریت خالص ہے۔ ایسے پھر ’’کم فہم و ناداں‘‘ کہتے ہیں کہ چائنہ و ملائشیا اور سنگاپور کی تاریخ دیکھ لیں یا ہم عمر و ہم عصر ممالک کا جائزہ لے لیں۔ اور تو اور بنگلہ دیش و سری لنکا و بھارت ہی کو دیکھ لیجئے! اب اور کیا کہنا اہلِ علم و اہلِ اقتدار ابتدائی ولاسٹی سیٹ کردیں، فائنل ولاسٹی اور منزل کا حصول تو نیچرل ہوگا مگر قبلہ درست کریں ناں، رخت سفر باندھیں ناں، قول و فعل میں مطابقت لائیں ناں، آئین کی دفعہ 10(اے) کے فئیر ٹرائل اور ڈیو پراسس کو بروئے کار لائیں ناں اور جمہوریت کو فریڈم آف اسپیچ اور فریڈم آف پریس سے کوسوں دور رکھیں تو یہ کیسی جمہوریت؟ جمہوریت اور حقوقِ انسانی ہم کلام نہیں گویا انسان اور انسانیت ہم کلام نہیں!

یومِ آزادی یا آزادیاں محفوظ رکھنے کیلئے جتنا آتش و آہن کے سپاہی کا متحرک رہنا ضروری ہے اتنا ہی قلم کے سپاہی اور اسکالر کا متبرک رہنا بھی ضروری ہے۔ سیاستدان، سول سرونٹس، ڈاکٹر، انجینئر، سوشل سائنٹسٹ اور نوجوان کے نزدیک جب تک ذمہ داری اور احساس ذمہ داری کا نام آزادی و یومِ آزادی نہیں بنتا تب تک پلاٹینم جوبلی کیا تو ڈائمنڈ جوبلی کیا؟ متحرک کے پیچھے تحریک ہوتی ہے اور تحریک ہی تاریخ کو جنم دیتی ہے، قائدِاعظم کی تحریک ہی ان کی تاریخ بنی، کسی شخصی تاریخ کا معاملہ ہو یا قومی تاریخ کی حقیقت کا، یہ ضروری ہے کہ پیش منظر کا پسِ منظر تحرک پر مشتمل ہو یا تحریک پر۔ جاگنا پڑتا ہے اور ہر دور میں حالات کا رخ موڑنا پڑتا ہے۔

گر یومِ آزادی پر بیٹری چارج اور ری چارج ہو، تو واہ کیا بات ہے! ورنہ، زندہ رہیں تو کیا ہے مرجائیں ہم تو کیا؟

کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے

اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے

تازہ ترین