• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اک گہری سرد آہ کیساتھ بھرائی ہوئی نسوانی آواز آئی ’’میں گھر میں محصور ہوں اور گھر والوں کے ساتھ ٹی وی پر تازہ صورتحال سے آگہی حاصل کررہی ہوں، ہم باہر نہیں جا سکتے، آپ کے پیغام کا شکریہ ہمارے لئے دعا کیجیے“۔ وٹس ایپ پر یہ وائس میسج کابل سے ایک 19سالہ لڑکی زینیبہ کا تھا۔ یہ لڑکی شاید پیدا بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسکے والدین کو افغانستان کے حالات کے پیش نظر 1996-97ء میں جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ ایران میں ان کیساتھ اچھا سلوک نہ کیا گیا تو والدین اپنے بچوں کو لیکر اس امید سے واپس افغانستان آگئے کہ اب یہاں امن رہیگا مگر حالات اس خاندان کو ایک بار پھر دوبارہ غیریقینی کی صورتحال کی طرف دھکیل چکے ہیں۔ یہ لڑکی کابل میں کام کرتی اور یونیورسٹی جاتی تھی، اس نے مجھے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ خوفزدہ ہے لیکن اسے بہتری کی امید بھی ہے۔ زینیبہ اور اس جیسی نجانے کتنی لڑکیاں اس وقت افغانستان میں خوف کا شکار ہیں مگر شاید ان میں سے اکثر کو معلوم ہی نہیں کہ انکے مستقبل گروی رکھ کر انکی سرزمین ایک بار پھر ایک نئے عالمی کھیل کیلئے تیار کی جارہی ہے۔ زیادہ دن نہیں گزرے جب میں کابل میں بیٹھا اندازہ لگا رہا تھا کہ طالبان ستمبر کے وسط میں افغان دارالحکومت کا رخ کریں گے۔ میرا دوسرا اندازہ یہ تھا کہ افغان فوج کی طرف سے مزاحمت ہوگی اور طالبان خون خرابے کے بعد ہی کابل کا تخت حاصل کر پائیں گے۔ طالبان میرے اندازے سے ایک ماہ پہلے ہی کابل آپہنچے اور شہر کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ گویا اب وہ عملی طور پر پورے افغانستان پر قابض ہیں۔ حیرت انگیز طور پر طالبان کے سامنے افغانستان کی فوج ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ نہتے، مجبور اور ناچار لوگوں نے طالبان کا استقبال ایسے ہی کیا جیسے 20سال قبل امریکیوں کی آمد پر ان کا کیا تھا۔ ایک اچھی بات یہ ضرور ہوئی کہ فی الحال کوئی بڑا خون خرابہ نہیں ہوا۔ امریکہ جس طرح افغانستان سے روانہ ہوا اور پورا ملک ایک طشتری میں رکھ کر طالبان کو پیش کیا گیا، پاکستان اور شاید دوسری جگہوں پر موجود لوگ اسے طالبان کی فتح قرار دے رہے ہیں حالانکہ یہ امریکہ بہادر کی طرف سے نئی گریٹ گیم کا حصہ لگتا ہے۔ عرصہ دراز سے امریکہ کا سب سے بڑا چیلنج طالبان نہیں بلکہ چین تھا اور اب چین کو نشانہ بنانے کیلئے طالبان کو گلے لگا لیا گیا ہے۔چین کیخلاف برسر پیکار ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ پر امریکہ نے بھی پابندی عائد کر رکھی تھی مگر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جاتے جاتے اس تنظیم پر سے بھی پابندی اٹھا گئے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ یہ تنظیم طالبان کیساتھ کندھے سے کندھا ملا کر افغان حکومت کے خلاف لڑتی رہی؟ اب طالبان کے پاس افغانستان کا کنٹرول ہے اور اس تنظیم کے پاس ایک پوری ریاستی چھتری۔ حیرت کی بات یہ ضرور ہے کہ اس تنظیم کے بعض رہنما ترکی میں جلاوطنی اختیار کیے ہوئے تھے، اب انکا افغانستان آنا اور آکر چین کیخلاف برسرپیکار اپنے ساتھیوں سے ملنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ طالبان کی طرف سے فروری 2020ءکے دوحہ امن معاہدے میں وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے۔ یہ وہ بات ہے جس کا اعلان بار بار کیا جارہا ہے مگر کیا دوحہ امن معاہدے کی باقی شقوں پر پورا عملدرآمد کیا گیا؟ اس معاہدے کی بس اتنی ہی اہمیت تھی کہ امریکہ نے بحفاظت نکلنے کی یقین دہانی حاصل کی اور اس بات کا خیال رکھنا بھی گوارا نہ کیا کہ افغانستان میں ایک حکومت بھی تھی جسکی وہ حمایت کرتا آیا۔طالبان کے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرتے ہی سب سے پہلے جیلوں میں قید افراد کی رہائی عمل میں لائی گئی ہے۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والوں میں بین الاقوامی طور پر دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم القاعدہ اور خطے کی دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے جنگجوئوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مختلف دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند بھی شامل ہیں (پاکستان کو مختلف کارروائیوں میں مطلوب بگرام جیل میں سال 2013سے قید ٹی ٹی پی کے نائب امیر مولانا فقیر محمد بھی رہائی پانے والے افراد میں شامل ہیں) البتہ یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ جیلوں میں داعش کے جنگجوئوں کو رہا نہیں کیا گیا جن کا فیصلہ طالبان اپنی عدالتوں میں کریں گے۔ جیلوں سے قیدیوں کی رہائی یقینی طور پر عسکریت پسند گروہوں کی نئی صف بندیوں اور نئے عسکری معرکوں کی منصوبہ بندی پر منتج ہوگی۔ پاکستان سمیت افغانستان کے پڑوسی ممالک بہرحال ان نئی صف بندیوں سے متاثر ضرور ہونگے۔ دوسری طرف طالبان کو بھی بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ اوّل یہ کہ پورے ملک کو عوامی فلاح کیلئے معاشی طور پر مستحکم رکھنا اور ایسے اقدامات کرنا کہ زینیبہ جیسی بچیوں کو ڈر نہ لگے وہ تعلیم حاصل کریں اور کام بھی کر سکیں۔ دوئم یہ کہ طالبان کو امن دشمن تنظیموں کو بھی کنٹرول کرنا ہوگا۔ یہ دونوں بہرحال مشکل کام ہیں۔

ان سب سے بڑھ کر امریکہ اور خطے کے دیگر کھلاڑیوں کی جائز ناجائز توقعات بھی ہیں۔ امریکہ ضرور چاہے گا کہ چین کو اسی سرزمین سے سبق سکھایا جائے کہ جہاں وہ خود 20سال تک پھنسا رہا۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ طالبان چین یا دیگر پڑوسی ممالک کیلئے درد سر نہیں بنیں گے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ امریکی ڈالروں کی مہک سے افغانستان میں موجود دیگر عسکریت پسندوں کی نیتیں خراب نہیں ہوں گی؟ ایسے میں نئی گریٹ گیم تو چلتی رہے گی مگر اس کا تاوان زینیبہ اور اس جیسے لاکھوں نوجوانوں کے خواب برباد کرکے ہی دیا جائیگا۔ دنیا جلتے ہوئے افغانستان کو دیکھ رہی ہے اور نئی گریٹ گیم شروع ہو چکی ہے لیکن آج نہیں تو کل خاموش تماشائی بنی اس دنیا کو اس سارے کھیل کا کسی نہ کسی صورت ضرور حساب دینا ہوگا۔ ایسے، جیسے یا تیسے۔

تازہ ترین