• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مراکش کے بادشاہ محمد ششم کی تخت نشینی کی سالگرہ کو مراکش میں ایک تہوار کی حیثیت حاصل ہے اور اسے ’’عیدالعرش‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ملک اور بیرون ملک مقیم مراکشی عوام اپنے بادشاہ کی سالگرہ بڑی گرمجوشی سے مناتے ہیں اور اس دن مراکش میں عام تعطل ہوتی ہے۔ میں گزشتہ 15 سال سے جب سے مراکش کا اعزازی قونصل جنرل مقرر ہوا ہوں، ہر سال مراکش کے بادشاہ محمد ششم کی تخت نشینی کی سالگرہ پر تقریب کا انعقاد کرتا آرہا ہوں لیکن اس سال کورونا کے باعث کسی بڑی تقریب کا انعقاد ممکن نہ تھا تاہم کراچی میں مقیم مراکشی فیملیاں جو بادشاہ سے ’’عہد وفا‘‘ کا اظہار کرنا چاہتی تھیں، کی خواہش پر اپنے نئے گھر کے مراکشی طرز پر بنے ’’مراکن سیلون‘‘ میں تقریب کا انعقاد کیا جس میں مراکشی فیملیاں مدعو تھیں۔ تقریب میں پاکستان میں مراکش کے سفیر محمد کرمون نے بھی شرکت کرنا تھی لیکن کراچی میں کورونا کی بگڑتی صورتحال اور لاک ڈائون کے باعث اُن کی شرکت ممکن نہ ہوئی تاہم انہوں نے ایک تہنیتی پیغام میں ’’عید العرش‘‘ کے حوالے سے شرکاء کو مبارکباد دی اور تقریب منعقد کرنے پر تہہ دل سے میرا شکریہ ادا کیا۔ تقریب میں مراکشی فیملیوں نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ مخصوص مراکشی لباس میں ملبوس ہو کر شرکت کی اور میرے ہمراہ تخت نشینی کی سالگرہ کا کیک کاٹا اور اپنے بادشاہ کی درازی عمر اور صحت یابی کیلئے خصوصی دعا کی تاکہ وہ ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرسکیں۔اس بار مراکش کے بادشاہ محمد ششم کی تخت نشینی کی 22ویں سالگرہ کے موقع پر مراکش میں زیادہ جوش و خروش دیکھنے میں آیا جس کی وجہ مغربی صحارا پر مراکش کی خود مختاری کو امریکہ کی جانب سے تسلیم کئے جانے پر پیشرفت تھی، جہاں امریکہ نے اپنا قونصل خانہ بھی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ مسئلہ صحارا مراکش کیلئے پاکستان کے مسئلہ کشمیر کی حیثیت رکھتا ہے مگر بادشاہ محمد ششم کے دوراندیش وژن کے باعث یہ سب ممکن ہوا۔ طارق بن زیاد اور ابن بطوطہ کے ملک مراکش سے میرا تعلق گزشتہ 30 سال سے زیادہ پرانا ہے۔ مراکش کو میں اپنا دوسرا گھر بھی تصور کرتا ہوں جہاں میرا اپنا گھر بھی ہے اور سال میں کئی بار میرا مراکش آنا جانا رہتا ہے۔اس بار کورونا کے باعث کافی عرصے سے مراکش نہیں جاسکا تاہم عنقریب میرا مراکش جانے کا ارادہ ہے۔

مراکش کے بادشاہ محمد ششم کا شجرہ نصب حضور اکرمﷺ سے ملتا ہے اور انہیں ’’امیر المومنین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مراکشی عوام اپنے بادشاہ سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔ محمد ششم کی بادشاہت کے دوران مراکش میں بڑی معاشی تبدیلیاں آئی ہیں اور ترقی نے مراکش کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے جس سے مراکشی عوام کے طرز زندگی میں بہتری آئی ہے۔ میں خود اس بات کا گواہ ہوں اور میں نے گزشتہ دو عشروں میں مراکش کو ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک بنتے دیکھا ہے، پورے ملک میں موٹر ویز کا جال بچھایا گیا ہے اور نئی پورٹس تعمیر ہوئی ہیں، مراکش کے عوام لوڈشیڈنگ سے واقف نہیں۔ مراکش کے تمام بڑے شہروں میں فرانسیسی کمپنی کے تعاون سے ٹرام بچھائی گئی ہے۔اسی طرح شہروں کو ایک دوسرے سے ملانے کیلئے مراکش میں 10ارب ڈالر کی لاگت سے دنیا کی تیز ترین ٹرین ’’البراق‘‘ کا آغاز کیا گیا ہے جس کی اسپیڈ 350 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جس سے گھنٹوں کا فاصلہ منٹوں میں طے کیا جاسکتا ہے۔ میں جب بھی مراکش جاتا ہوں تو البراق میں ضرور سفر کرتا ہوں اور اکثر یہ سوچتا ہوں کہ کیا میں اپنی زندگی میں پاکستان میں بھی ایسی تبدیلی ریلوے میں دیکھوں گا۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ مراکش کے بعد دونوں ممالک کے دفاعی تعلقات میں قربت دیکھنے میں آئی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے اور مراکش کے دارالحکومت رباط میں ملٹری اتاشی بریگیڈیئر طحہٰ الطاف کو مقرر کیا گیا ہے۔ وہ ایک پروفیشنل سولجر ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان عسکری تعلقات میں اضافے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اِسی طرح مراکش میں پاکستان کے سفیر حامد اصغر خان دونوں ممالک میں درمیان تجارت کے فروغ کے سلسلے میں بہت متحرک ہیں۔ گزشتہ دنوں جب وہ پاکستان آئے تو میری دعوت پر کراچی تشریف لائے۔ بزنس کمیونٹی سے ملاقات میں انہوں نے پاکستانی بزنس مینوں کو مراکش مدعو کیا اور اُنہیں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ حامد اصغر خان نے کہا کہ جیسے ہی کورونا کی صورتحال بہتر ہو، پہلے کی طرح پاکستانی بزنس مینوں پر مشتمل ایک وفد مراکش لے کر آئوں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان وفود کے تبادلے کا یہ تسلسل برقرار رہے۔واضح رہے کہ کورونا سے قبل میں نے مراکش میں پاکستانی سفارتخانے کے تعاون سے ’’بریانی فیسٹیول‘‘ کا انعقاد کیا تھا اور معروف پاکستانی شیف گلزارنے کئی اقسام کی بریانیاں بناکر مراکشی عوام کے دل جیت لئے تھے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس فیسٹیول کے انعقاد کے بعد پاکستانی چاولوں کی مراکش ایکسپورٹ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم امریکہ اور یورپ سے تجارت کو ترجیح دیتے ہیں اور 1.3ارب آبادی کے افریقی خطے کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت افریقہ پر توجہ دے جس میں مراکش کو گیٹ وے کی حیثیت حاصل ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین