• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پون صدی سے ہزاروں کشمیری بھارتی جارحیت کے خلاف جدوجہد کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ اس تناظرمیں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے غیرمتوقع طورپر دو ریفرنڈم کروانے کا اعلان کرکے دنیاکوحیران پریشان کرکے رکھ دیا، انہوں نے آزاد کشمیر میں 2 ریفرنڈم کرانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ پہلے ریفرنڈم میں کشمیری عوام پاکستان یا بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کریں گے جبکہ ہماری حکومت میں ہونے والے دوسرے ریفرنڈم میں وہ پاکستان کے ساتھ الحاق یا آزاد ریاست کے طور پر رہنے کا فیصلہ کریں گے جبکہ آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی افواہوں کو بے بنیاد قرار دیا۔ ان کا کہنا تھامیرا ایمان ہے کشمیر کے لوگوں کی قربانیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ یہ بہت پرانی جدوجہد ہے اور وہ اپنے حق کے لیے بار بار کھڑے ہوئے ہیں پاکستان اور کشمیر کے 40 فیصد نیم متوسط طبقے کو سبسڈی پر مشتمل ضروری اشیاء میسر ہوں گی اور دسمبر تک تمام ڈیٹا بیس اور سافٹ ویئر تیار ہوجائے گا۔

کشمیری ہمت نہ ہاریں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہر مشکل میں ساتھ کھڑے رہیں گے کیونکہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے عالمی برادری نے کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا ہے۔ میری پہلی ترجیح آزاد کشمیر کے لوگوں کو غربت سے نکالنا ہے۔ غربت میں کمی کیلئے احساس پروگرام ملکی تاریخ کا بڑا پروگرام ہے ۔ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ میں ہر فورم پر کشمیریوں کی آواز بلند کر رہا ہوں اور کرتا رہوں گا بھارت جو مرضی کرلے کشمیریوں میں آزادی کا جذبہ موجود رہے گا۔ کشمیریوں کی جدوجہد میری نظر میں زمین کی نہیں انسانی حقوق کی ہے۔ کشمیریوں کا جمہوری حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔

عمران خان کا موقف اسی سات نکاتی ایجنڈے کا حصہ ہے کہ جس کی شروعات سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف نے اپنے دور میں کی تھی، گلگت بلتستان اور 85 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے و آبادی کو چھوڑ کر صرف آزاد کشمیر میں ریفرنڈم کرانا جدوجہد و آزادی کشمیر کے ساتھ غداری ہے۔ ہم مسئلہ کشمیر کا حل صرف اور صرف اقوام متحدہ کے تحت حق استصواب رائے سے چاہتے ہیں۔ طے شدہ امورکے ساتھ چھیڑ چھاڑ سےانتہائی خوفناک نتائج مرتب ہوسکتے ہیں جبکہ مود ی سرکار پہلے ہی مقبوضہ وادی کی جداگانہ حیثیت تبدیل کرچکی ہے ان حالات میں عمران خان کا آزاد کشمیر میں 2 ریفرنڈم کرانے کا اعلان کہ پہلے ریفرنڈم میں کشمیری عوام پاکستان یا بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کریں گے جبکہ ہماری حکومت میں ہونے والے دوسرے ریفرنڈم میں وہ پاکستان کے ساتھ الحاق یا آزاد ریاست کے طور پر رہنے کا فیصلہ کریں گے، انتہائی خوفناک ہے ایسے شوشے چھوڑنا کشمیریوں کی جدوجہد کے منافی ہے۔

2سال پہلے اسی ماہ انڈیا کی مودی سرکار نے اپنے زیر نگرانی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔کس نے کیا کیا؟ اور کب کیا؟ ان سوالوں کا دفتر کھولا جائے تو یہ ایک داستان کی شکل اختیار کر سکتی ہے جس کا احاطہ کالم میں ہونا ممکن نہیں۔1947سے لیکر نریندر مودی کے5 اگست2019کا اقدام اور گلگت بلتستان و آزاد کشمیر انتخابات2021تک کے ہندوستانی اور پاکستانی انتظامات و اقدامات سے پوری دنیا واقف ہے اگر بے خبری کسی کے حصے میں آئی ہے تو وہ اس خطے کے باسی ہی ہیں جو زندہ باد اور مردہ باد سے آگے کا راستہ طے کرنا ہی نہیں چاہتے یا ان کو اس بات کی سمجھ نہیں کہ انہوں نے کرنا کیا ہے؟۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس خطے کے کرتا دھرتا دونوں ملک جس میں سے ایک ملک جو اسے متنازعہ علاقہ سمجھتا تھا اور اب بھی اسے متنازعہ ہی سمجھتا ہے یا وہ ملک جس نے ثالثی قبول کرتے ہوئے اقرار کیا تھا کہ کشمیر تنازعہ کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت یہاں بسنے والے باسیوں کی مرضی کے مطابق کیا جائیگامگر اب اس ملک کا موقف کچھ اور بن چکا ہے جو پوری ریاست کو اپنا اٹوٹ انگ مانتا ہے۔دونوں شروع دن سے ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے ریاست کی بااختیار حکومتیں تشکیل دیتے۔لیکن آج تک کی تاریخ تک دونوں ملکوں کے اقدامات سے جو کچھ معلوم ہوا ہے اسے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں وہ دنیا کے سامنے ہے اور ریاست کا ہر با شعور فرد اس سے بخوبی واقف بھی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان جو ریاست کو ایک متنازعہ خطہ سمجھتا ہے، مسئلے کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کی بات شروع دن سےکر رہا ہے۔ خبر یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے حالیہ دنوں میں وزارت قانون کی طرف سے مجوزہ قانون سازی کوحتمی شکل دی جانی ہے جس میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائے جانے کی بات کی گئی ہے۔ اس مسودے یا مجوزہ قانون سازی میں بھی اقوام متحدہ کا ذکر موجود ہے جس میں یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ عبوری صوبے سے کشمیر کاز کے بارے پاکستان کے موقف میں کوئی کمزوری نہیں آئیگی اور گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی کو عبوری کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ جی بی کو پاکستانی پارلیمنٹ اور سینیٹ میں بھی نمائندگی کی بات کی گئی ہے لیکن مسودے میں نمائندگی کے طریقہ کار بارے کوئی واضح الفاظ یا وضاحت نہیں۔ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ایسا کرنے کے لئے پاکستانی آئین کی شق ایک میں ترمیم کرنے کے لئے پارلیمنٹ سے بل پاس کروایا جائے گا۔

تازہ ترین