• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کابل ایئر پورٹ پر تعینات امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں 20برس سے جاری امریکی جنگ اختتام کو پہنچی اور امریکی حلقوں کے مطابق طالبان کا امتحان شروع ہو گیا ہے کہ وہ اپنے ملک کو ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل کی طرف کیسے لے جا سکتے ہیں۔ زمینی حقیقت یہی ہے کہ افغانستان سے 40سے زیادہ ملکوں کے اتحاد کی واپسی کے بعد آنے والے مراحل اور چیلنجز ایسے نہیں جنہیں کسی بھی اعتبار سے آسان کہا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف امریکہ یہ واضح کر رہا ہے کہ وہ نئی افغان حکومت سے اپنے مفاد میں تعاون کرے گا، دوسری جانب شوریٰ کے اجلاس کے بعد ترجمان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ سے بھی اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ تیسری جانب خطے کے ملکوں سمیت عالمی برادری کا یہ تاثر نمایاں ہے کہ افغانستان کو آنے والے دنوں، مہینوں یا برسوں میں جن کیفیات کا سامنا رہے گا ان کے اثرات دور رس ہو سکتے ہیں۔ پاکستان چونکہ افغانستان کے حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اس لئے سیکورٹی اور سرحدی امور سے متعلق متعدد احتیاطی تدابیر و اقدامات کے باوجود یہ کہنا آسان نہیں کہ افغانستان کی صورتحال جو بھی ہوگی اس کے اثرات پاکستان میں نہیں آئیں گے۔ اس باب میں مختلف ممالک کے باہمی رابطے بھی جاری ہیں جبکہ پاکستانی وزیر خارجہ کے بیرونی دوروں اور غیرملکی مہمانوں اور وفود کے اسلام آباد میں خیرمقدم کی صورت میں خیرخواہانہ کاوشیں جاری ہیں جن کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف بھی کیا جارہا ہے۔ منگل کے روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے چینی سفیر نونگ رونگ کی ملاقات میں افغانستان کی حالیہ پیش رفت اور سی پیک کے تحفظ کے امور زیر غور آئے۔ جرمن وزیر خارجہ ہائکو ماس نے بھی وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں۔ جرمن وزیر خارجہ اور ان کے پاکستانی ہم منصب نے مشترکہ پریس کانفرنس میں امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں افغانستان میں قومی حکومت تشکیل پا جائے گی جبکہ چینی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں بھی توقع ظاہر کی گئی ہے کہ نئی افغان حکومت ہر طبقے کی نمائندگی پر مشتمل ہوگی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صوبہ پنج شیر میں طالبان کے تین شہروں پر قبضے اور جنگجوئوں کی مزاحمت کے پس منظر میں احمد مسعود کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ طالبان جامع حکومت بنانے پر تیار ہیں تو مزاحمت ختم کر دیں گے۔ اس اعتبار سے قندھار میں اسلامی امارات کے سربراہ ہیبت اللہ اخوند زادہ کی سربراہی میں منعقدہ شوریٰ اجلاس کے فیصلے خاص اہمیت رکھتے ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ وسیع النبیاد حکومت سمیت اہم اقدامات سامنے آئیں گے۔ اُدھر صدر جوبائیڈن نے امریکی قوم سے خطاب میں افغانستان میں جنگ ختم کرنے کو درست فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’افغانستان میں ہمارا مفاد صرف یہ ہے کہ یہ سرزمین امریکہ اور دنیا کے لئے خطرہ نہ بنے، ہم افغانستان کے عوام سے ڈپلومیسی، امداد و تعلقات کے ذریعے تعاون جاری رکھیں گے‘‘۔ اس بیان میں افغانستان میں امن و آشتی کی فضا کے قیام کی خواہش کا اظہار بھی موجود ہے اور چین اور روس کے چیلنجوں کا ذکر کسی نئی رسہ کشی کی نشاندہی بھی کرتا محسوس ہوتا ہے۔ مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان کی مالی امداد بند کرکے یا امریکی بینک میں اپنے اثاثوں تک اسکی رسائی ناممکن بناکر افغانستان کی کیسے مدد کی جا سکتی ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری فوری طور پر نئی کابل حکومت کواپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دے کیونکہ ایک مستحکم افغانستان ہی خطے کے امن و استحکام میں معاون ہوکر اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن کر عالمی خوشحالی میں اضافے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔

تازہ ترین