قائداعظم محمد علی جناح،جنہوں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا، کی جدوجہد برصغیر کے مسلمانوں کو مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکالنے میں مدد گار ثابت ہوئی، 11 ستمبر 1948 کو ہم سے رخصت ہو ئے۔ وہ لوگ جو 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد سے مظلوم و محکوم تھے قائد نے انہیں ایک قوم میں بدلنے کی ذمہ داری نبھائی۔ قائد کو بطور گورنر جنرل اگرچہ بہت قلیل وقت ملا، لیکن انہوں نے ہر پاکستانی کی بنیادی سمت متعین کر دی۔ انہوں نے تشدد اور تضاد کو ناپسند فرمایا۔ وہ قانون کی حکمرانی کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ بات چیت، مساوات اور اتحاد کی وکالت کی۔اس کے باوجود کہ تاریخ نے ہمیں بہت سے اسباق سکھائے، پاکستانی اب بھی قائد کے سکھائے گئے بنیادی اصول،’’اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط‘‘ سے محروم ہیں۔جب ہمارے اکابر مزارِ قائد پر جمع ہوتے ہیں اور اُن کے لئے دعائیں کرتے ہیں تو اُنہیں قائد کی متعین کی گئی بنیادوں سے رہنمائی بھی حاصل کرنی چاہئے، اِنہی بنیادوں سے ایک نیا، پہلے سے زیادہ طاقتور اور پاکیزہ پاکستان اُبھر سکتا ہے۔
پاکستان وجود میں آنے سے لے کر آج تک شدید خطرات میں گھرا ہواہے یہاں تک کہ 2021 میں بھی اسے کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ دائیں بازو کے انتہا پسند مودی کا بھارت ہمیشہ کی طرح دشمنی نبھا رہا ہے، طالبان کے آنے کے بعد کابل ایک بار پھر کھنڈر بن چکا ہے، امریکی، علاقائی بحران پیدا کر کے دم دبا کر بھاگ چکے ہیں۔ پاکستان 2001 میں طالبان کے خلاف امریکی حملے میں نہ چاہتے ہوئے بھی اتحادی بننے پر مجبور تھا، اب 20 سال بعد طالبان کی اخلاقی حمایت کر رہا ہے۔افغانستان پر امریکی قبضے اور کرزئی کی زیر قیادت حکومت کے دوران، ہندوستانی حکومت کابل میں قدم جمانے میں کامیاب رہی۔ مشن یہ تھا کہ افغان فوجی انفراسٹرکچر، صنعت اور تجارت میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ افغانستان کے لوگوں میں پاکستان مخالف جذبات کو فروغ دیا جا سکے۔ یہ مقصد کسی حد تک امریکی مداخلت اور بلیم گیم کے ذریعے حاصل بھی کیا گیا۔ جب کابل میں یہ سب ہو رہا تھا، پاکستان نے عمدہ موقف اپنایا۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی، دیرپا امن کو موقع دینے کا واحد راستہ مذاکرات ہوتے ہیں۔ دنیا یہ نہیں سمجھ سکی کہ غیر ملکی فنڈڈ حکومتیں اور جعلی رہنما پائیدار نہیں ہوتے۔ 20 برسوں کی بے معنی کشمکش کے بعد، حکومت پاکستان کا بیانیہ قبول کر لیا گیا۔ مذاکرات ہی مسئلے کا حل ثابت ہوئے۔ امریکیوں اور ہندوستانیوں کی 20 سالہ پولرائزیشن چند ہفتوں میں اپنے انجام کو پہنچ گئی اور آخری امریکی فوجی تک افغانستان سے کوچ کر گیا۔ پاکستان کے لوگوں نے ہمیشہ بطور اسلامی فلاحی ریاست کے افغانستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ بالآخر ہمیشہ کی طرح سچ کی فتح ہوئی اور افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات اور بیانیے کی موت ہوئی۔
قائداعظم نے پاکستان کو مضبوط اور بااثر ممالک میں لا کھڑا کیا۔ اس وقت پاکستان دنیا کی سب سے بڑی مسلم قوم تھی۔ 1960 کی دہائی تک پاکستان خطے کی ابھرتی ہوئی طاقتوں میں شامل تھا۔ عظیم قائد کے اقدامات نے عوام کی انتھک کوششوں کے ساتھ ملک کو ان قوموں میں ترقی کا علمبردار بنا دیا جنہوں نے استعمار سے آزادی حاصل کی۔ فوجی اور سویلین حلقوں کے درمیان لڑائی نے ترقی کی رفتار کو متاثر کیا۔ متعدد فوجی مداخلتوں نے وہ خواب چکنا چور کر دیا جو پاکستان کی تشکیل کے حوالے سے دیکھا گیا تھا۔ کرپشن، سیاسی عدم استحکام، تشدد، فرقہ واریت اورعدم تعاون نے کئی دہائیوں سے قوم کو کامیابی کی پٹری پر چڑھنے نہیں دیا لیکن اب پاکستان کا منزل کی طرف سفر شروع ہو چکا ہے۔
پاکستان نے اندرونی طور پر استحکام اور کمزوریوں کی وجوہات کی شناخت شروع کر دی ہے۔ معاشرے کے مختلف شعبے ایک چھت تلے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ میگا پروجیکٹس اور چھوٹے منصوبوں کا اجرا اس بات کی گواہی ہے۔ پہلی بار پاکستان میں انگریزی واردو میڈیم اسکولوں سمیت مدرسوں میں یکساں نصابِ تعلیم لاگو کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی انجینئرز اور پروڈکشن ہاؤسز نے پہلی بار سیل فون سمیت آئی ٹی مصنوعات برآمد کرنے میں ہاتھ بٹایاہے۔ برآمدات میں اضافہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان نے سرکاری اور نجی شعبوں کی مشترکہ کاوشوں کے ذریعے کوویڈ 19کے خلاف ویکسی نیشن کی کامیاب مہمات کا آغاز کیا، پاکستان نے ایک قوم کے طور پر بہت سے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں وبائی مرض کے خلاف بہتر کارکردگی دکھائی۔ بلاشبہ یہ ایک قابل ذکر کارنامہ ہے۔ ٹیکنالوجی، آئی ٹی اور ماس میڈیا کی کھپت بڑھ رہی ہے۔ تعمیراتی شعبہ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے پہلے سے زیادہ سرمایہ کاری کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اگرچہ افراط ِزر میں اضافہ ہورہا ہے لیکن معاشی ماہرین سمجھ سکتے ہیں کہ افراط زر کھپت اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے ہے نہ کہ منفی معاشی اشاریوں کے باعث، ماہرین معاشیات عام طور پر اسے ’’ڈیمانڈ پش انفلیشن ‘‘کہتے ہیں جو معاشی بحالی کی علامت ہے۔ قائد کا پاکستان نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔
بین الاقوامی محاذ پر، اپنی دانشمندانہ پالیسیوں کی بنا پر پاکستان ایک بار پھراہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آج، چین خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور ترقی کے سفر میں پاکستان کو سب سے زیادہ قابل اعتماد حلیف سمجھتا ہے۔ CPEC اور OBOR پاکستان کی ترقی اور پڑوسیوں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ افغانستان کے تناظر میں جرمنی، اسپین، برطانیہ اور دیگر کئی ممالک نے پاکستان کا اپنے شہریوں کو کابل سے نکالنے میں سہولت فراہم کرنے پر شکریہ ادا کیا ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سربراہ نے پاکستان کی انسانیت نواز کوششوں کو سراہاہے۔ بابائے قوم کی تخلیق کردہ قوم حقیقی معنوں میں پہچانی جا رہی ہے۔ امید اور چیلنجز یکساں طور پر موجود ہیں اور رہیں گے۔ کراچی میں قائد کا مزار ہر پاکستانی کو اکٹھے ہو کر سوچنے، اتحاد، یقین اور نظم و ضبط کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی دعوت دیتا ہے، کیونکہ یہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔
(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)