70ءکی دہائی کا واقعہ ہے، مَیں اُن دنوں نانا ابّا کے گھر رہنے کے لیے گئی ہوئی تھی۔ نانا ابّا، بجلی کا بِل معمول سے چار گنا زیادہ آجانے کی وجہ سے سخت غصّے میں تھے۔ اُس گھر میں نانا ابّا کے ساتھ اُن کے دو بیٹے یعنی میرے دو شادی شدہ ماموں بھی رہائش پذیر تھے، جب کہ ایک خالہ اور اُن سے چھوٹے ماموں غیر شادی شدہ تھے۔ خالہ کا کمرا قدرے بڑا تھا، اس وجہ سے جب سارے مرد صبح آفس چلے جاتے، تو دونوں ممانیاں اور اُن کے بچّے چھوٹی خالہ کے کمرے میں پڑائو ڈال لیتے۔
سب کا زیادہ تر اٹھنا بیٹھنا اور کام کاج اُسی کمرے میں ہوتا۔ ماسی بھی آتی تھی، مگر کھانا پکانا خواتین خود کرتی تھیں۔ بہرحال، جب اس ماہ بجلی کا بل زیادہ آنے کے محرکات پر غورکیا گیا اور بات چیت کی گئی، تو معلوم ہوا کہ مَردوں کے کام کاج پر جانے کے بعد خالی کمروں میں بلاوجہ پنکھے چلتے رہتے ہیں، کوئی موجود ہو نہ ہو، مگر پنکھے اور دیگر برقی آلات کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے، لہٰذا سب کو سختی سے ہدایت کردی گئی کہ ’’جب کمرے سےباہر جائیں اور کمرے میں کوئی دوسرا موجود نہ ہو، تو پنکھے اور غیر ضروری لائٹس وغیرہ بند ضرور کردیں۔‘‘ بہرحال، گھر کے سب افراد کی طرح مَیں بھی اس ہدایت پر عمل کرنے لگی۔
مَیں اُس وقت اسکول کی طالبہ تھی، چھوٹی خالہ سے دوستی تھی، اس وجہ سے وہ اکثر مجھے اپنے یہاں بلالیتی تھیں۔ ایک دن ایسا ہوا کہ بڑی ممانی کچن میں کھانا پکارہی تھیں اور اُن کا چھوٹا بیٹا، جس کی عُمر بہ مشکل ایک سال ہوگی، کمرے میں سورہا تھا اور پنکھا چل رہا تھا۔ میں کسی کام سے وہاں سے گزری تو یہ دیکھ کر بڑا غصّہ آیا کہ ابھی بجلی کے بل پر اتنی باتیں ہوچکی ہیں اور یہ نواب صاحب اکیلے پنکھے کی ہوا میں ٹھاٹھ سے سورہے ہیں، اتنے سے بچّے کو کیا پتا کہ بجلی ہے کہ نہیں۔ یہ سوچتے ہوئے میں نے پنکھے کا سوئچ آف کیا اور کمرے سے باہر آگئی۔
میرے کمرے سے نکلتے ہی بچّہ گرمی سے بے چین ہوکر اُٹھ کے رونے لگا۔ بچّے کے رونے کی آواز سُن کر ممانی کمرے میں گئیں اور پنکھا بند دیکھا، تو دوبارہ آن کرکے اسے دوبارہ سلادیا اور کچن میں چلی گئیں۔ تھوڑی دیر میں میرا پھر اُدھر سے گزرنا ہوا، پنکھا چلتے دیکھا، تو پھر سوئچ آف کردیا۔ بچّہ گرمی سے بلبلا کر پھر اُٹھ کر رونے لگا۔ ممانی دوڑتی ہوئی کمرے کی طرف گئیں اور پنکھا بند پایا تو غصّے میں کہنے لگیں ’’اتنی مشکل سے بچّے کو سلاتی ہوں، پتا نہیں کون پنکھا بند کردیتا ہے، اب میں بچّے کو سلائوں کہ کھانا پکائوں۔‘‘یہ کہہ کروہ پھر سے بچّے سلانے کی کوشش کرنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد بچّہ سوگیا، تو وہ پھر کچن میں چلی گئیں، تاہم میں نے دوبارہ یہ حرکت نہیں کی۔
کچھ عرصے بعد میری شادی ہوگئی۔ نانا ابّا کے گھر آنا جانا کم ہوگیا۔ پھر چھوٹی خالہ اور ماموں کی بھی شادی ہوگئی۔ میرے بھی تین بچّے پیدا ہوگئے۔ میرے سسرال میں ساس، سُسر کے علاوہ دوجیٹھانیاں اور اُن کے بچّے بھی ایک ساتھ رہتے تھے۔ بڑی جیٹھانی کا گھر بھر میں خاصا رعب تھا،حتیٰ کہ ساس، سُسر بھی اُن سے دبے دبے سے رہتے تھے، وہ جو کہہ دیتیں، ساس، سُسر بھی وہی کرتے۔ مَیں اسکول میں ملازمت کرتی تھی، اسکول کے کپڑے ایک دودن چھوڑ کر استری کرتی تھی، میرے تینوں بچّے ابھی بہت چھوٹے تھے۔ شوہر کے کپڑے بھی روز روز استری نہیں ہوتے تھے، جب کہ بڑی جیٹھانی اپنے اور شوہر کے علاوہ اپنے بچّوں کے ڈھیروں ڈھیر کپڑے کمرا بند کرکے استری کرتی رہتی تھیں۔
ایک روز مجھے استری کرتے دیکھ کر جیٹھانی نے ساس سے شکایت لگائی کہ ہرروز استری ہورہی ہے، سُسر نے بھی شور مچایاکہ تمہاری وجہ سے بجلی کا بل زیادہ آرہا ہے۔ خیر، اُس روز خوب لے دے ہونے کے بعد یہ طے پایا کہ ہم اپنے کمرے میں سَب میٹر لگالیں، تاکہ پتا چلے کہ ہم کتنی بجلی خرچ کرتے ہیں، حالاں کہ ہمارے استعمال میں صرف ایک کمرا تھا، جس میں ہم دونوں میاں بیوی اپنے دو چھوٹے چھوٹے بچّوں کے ساتھ رہتے تھے، جب کہ جیٹھانی کے پاس دو کمروں کے علاوہ برآمدہ، کچن وغیرہ سب ہی کچھ تھا۔ بجلی کے خرچ کے معاملے میں ہمارا اور اُن کا کسی طرح موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
خیر، آمد برسرِ مطلب، ہوا یہ کہ ایک روز میں اپنے چھوٹے بیٹے عارف کو سُلا کر کچن میں کام کررہی تھی، دونوں بیٹے اسکول گئے ہوئے تھے۔ میرے بچّے کو کمرے میں اکیلا سوتا دیکھا، تو بڑی جیٹھانی دبے پائوں کمرے میں گئیں اور پنکھا بند کرکے دوسرے دروازے سے خاموشی سے نکل گئیں۔ پنکھا بند ہوتے ہی بچّہ بے چین ہوکر اُٹھ گیا اوررونے لگا۔ مَیں کمرے میں گئی، تو دیکھا پنکھے کا سوئچ آف تھا، میں نے سوئچ آن کیا اور اسے دوبارہ سلانے کی کوشش کرنے لگی۔ اُس وقت احساس ہوا کہ کچّی نیند سےجاگنے والے بچّے کو سلانا کتنا مشکل کام ہے، اور پھر دوسرے کاموں میں تاخیر الگ ہوجاتی ہے۔ بہرحال، بیٹے کو سلا کر دوبارہ کچن میں گئی، تو تھوڑی دیر بعد جیٹھانی دوبارہ کمرے میں گئیں اور پنکھا بند کرکے دوسرے دروازے سے باہر نکل گئیں۔ بچّہ ایک بار پھر بے چین ہوکر رونے لگا۔
مَیں نے بچّے کو گود میں اٹھایا اور جیٹھانی کے پاس جاکر غصّے سے کہا ’’بھابی! یہ کیا حرکت ہے؟ آپ بار بار پنکھا کیوں بند کررہی ہیں، مجھے کام کاج کرنا ہے، پھر اسکول بھی جانا ہے۔‘‘ لیکن جیٹھانی صاف مُکر گئیں۔ انہیں اس طرح صریحاً جھوٹ بولتے دیکھ کر مجھے غصّے کے ساتھ حیرت بھی ہوئی۔ بہرحال، میں پیر پٹختی کمرے میں گئی اور دوسرا دروازہ بند کرکے ایک بار پھر بچّے کو سُلانے کی تگ و دو کرنے لگی، جب بچّہ سو گیا، تو کچن میں جاکر اس طرح بیٹھی کہ اگر کوئی میرے کمرے میں جائے، تو مَیں اُسے دیکھ کر پہلے ہی روک دوں، حالاں کہ دیکھ تو میں پہلے بھی چُکی تھی، مگر کچھ کہا نہیں تھا، مگر پھر اُسی لمحے اچانک میرے ذہن میں قرآن پاک کہ یہ آیت آگئی۔
جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’جس نے ذرّہ بھر بھلائی کی، تو وہ اس کا صلہ ضرور پائے گا اور جس نے ذرّہ بھر بھی برائی کی، تواس کا بد لہ اسے ضرور ملے گا۔‘‘ اس آیت کے ذہن میں آتے ہی میرا سر ندامت سے جھک گیا، ایمان مزید پختہ ہوگیا اور پھر میں نے اُسی وقت اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کیا کہ نادانی میں مجھ سے جو زیادتی ہوگئی تھی، رب العزّت نے اپنے مکمل نظامِ حیات کے تحت دنیا ہی میں اس کا بدلہ دکھادیا۔ اس کے بعد میں نے خلوصِ دل سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور دُعا کی کہ ہمیشہ مجھے اور میرے اہل وعیال اور تمام مسلمانوں کو ہر قسم کے گناہ سے محفوظ رکھے، آمین۔ ( مسز گوہر خالد، گلشن اقبال،کراچی)