• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئی توانائی پالیسی کے اہداف صرف آرزوئیں ہی رہیں گی یا یہ کبھی موثر اقدامات کی صورت بھی اختیار کریگی، یہ نواز شریف کی حکومت کا کلیدی امتحان ہے۔ مجوزہ پالیسی کے بارے میں گزشتہ ہفتے وزیر اعظم کی موجودگی میں ہونیوالی میڈیا بریفنگ میں بتایا گیا صوبائی حکومتیں اس پالیسی کا جائزہ لے رہی ہیں۔حکومت کی تذویر یہ تسلیم کرتی ہے کہ توانائی کے شعبے کی ازسر نو تشکیل اور اس میں اصلاحات اور درد سے گزرے بغیر پاکستان کے بدترین توانائی بحران پر دیرپا قابو نہیں پایاجاسکتا۔ یہ تذویر غریبوں کی حفاطت کرتی ہوئی تقسیمِ درد کی متلاشی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بجلی کے نرخوں میں اضافے پر کمرشل اور صنعتی صارفین مزاحمت کریں گے تو کیا حکومت اس پالیسی کو جاری رکھے گی۔ اگر بجلی کی بلا تعطل ترسیل کو یقینی بنایا جائے تو اسی صورت میں اس سیاسی خطرے کو قدرے کم کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ اکتوبر کے بعد موسم لوڈ شیڈنگ کو بڑی حد تک کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا لیکن فوری طور پر ایسا ممکن نہیں ہے۔ تاہم بجلی کے نرخوں میں اضافہ جلد از جلد ضروری ہے۔ بجلی کی بلاتعطل فراہمی سے قبل اس کے نرخوں میں اضافے کی تذویر کا مقصد گردشی قرضے کی اہم ترین وجہ پر قابو پانا ہے۔ غیر اہداف شدہ سبسڈیز کا سالانہ حجم تقریباً 4 ارب ڈالر کے مساوی ہے، جو بجلی کی پیداواری لاگت اور اسکی فراہمی کے مابین فرق کو حکومتی سرمائے کی مدد سے پورا کرتی ہے۔ بجلی کے نرخوں کی تیاری اس شعبے کا محرک ہے جس سے نجی سرمایہ کاری کا آغاز ہوگا۔ گردشی قرضے کی 480 ارب روپے قرض لے کر ادائیگی کے بعد اب حکومت ہی جانتی ہے کہ اگر قرضوں کے بہاوٴ کو نہیں روکا گیا تو یہ دوبارہ جمع ہونا شروع ہوجائیں گے۔ یہ مسئلہ سبسڈیز ختم کرکے، بجلی کے نرخوں میں ردوبدل کرکے اور بجلی کی چوری پر قابو پاکر حل ہوسکتا ہے۔ اس لیے بجلی کے نرخوں کی تشکیل نو کچھ اس طرح ہونی چاہیے کے 200 کلو واٹ لوڈ کے حامل صارفین کے نرخوں میں تبدیلی نہ کی جائے باقی سب کیلئے نرخوں میں اضافہ کیا جائے۔ 150 ارب روپے کی بقیہ سبسڈی گردشی قرضوں میں اضافے کا سبب بنے گی لیکن اس کا بہاوٴ کم ہوجائے گا اور بالآخر قرضے کا حجم بھی کم ہوجائے گا۔ اگر بجلی کے نرخوں میں ردوبدل نہیں کیا گیا اور اگر بجلی کی پیداواری استعداد میں کسی نہ کسی طرح اضافہ بھی کردیا تو بھی امسال اس مد میں سبسڈی کا حجم 5 ارب ڈالر تک پہنچ جائیگا۔ بجلی کی طلب و رسد میں خلاء پر کرنے کی حکومتی حکمت عملی کا دارومدار اس شعبے میں ملکی اور غیر ملکی نجی شعبے کی سرمایہ کاری پر ہے۔ اس آزرومندانہ ہدف کا انحصار معیشت کلاں اور ملک میں سکیورٹی کے بحران سمیت کئی معاشی اور غیر معاشی عوامل پر ہے۔ اس سے ملک کو درپیش بین الا ربطی چیلنجز واضح ہوتے ہیں، جن پر قابو پانے کیلئے حکومت کو ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں زیر زمین دبانے کی۔ اس لیے حکومت کی توانائی پالیسی کے اہداف کے حصول کا بڑا انحصار قومی سلامتی کیلئے اس کی نافذ کردہ تذویر اور اس کی جانب سے معیشت کی بحالی اور ملکی ترقی کیلئے لیے جانے والے اقدامات پر ہے۔
توانائی پالیسی کے تین کلیدی حصے ہیں جو کہ آرزومندانہ اہداف پر مشتمل ہیں۔ پہلا حصہ بجلی کی طلب و رسد میں 5ہزار میگا واٹ کی اضافی پیداوار سے ختم کرنا اور طویل مدتی ضروریات کیلئے اسکی پیداوار کو مزید بڑھانا ہے۔ پیداوار میں اضافے کیلئے سرمایہ کاری کی حوصلہ افرائی اور موجودہ اثاثوں پر سہولت کی پیشکش حکومت کا منصوبہ ہے۔ اثاثوں پر سہولت کی پیشکش سے مراد بجلی کے موجودہ پلانٹس جو تنازعات، رقم کی کمی یا خراب کارکردگی کے باعث بند پڑے ہیں انہیں بحال کرنا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ 1400 میگاواٹ پہلے ہی نیشنل گرڈ میں شامل ہوچکے ہیں اور ایک سال کے اندر مزید 1450 میگا واٹ بجلی بند پلانٹس کی بحالی کے پروگرام پر عمل کرکے حاصل کی جائیگی۔ تبدیلی کے ہمہ گیر پروگرام میں بدحالی کا شکار ٹرانسمیشنز لائنوں میں بھی بہتری لائی جائیگی، یہ لائنیں اس قدر خراب ہوچکی ہیں کہ اگر بجلی کی پیداوار بڑھا بھی دی جائے تو بھی یہ اس کا لوڈ نہیں برداشت کرسکتیں۔بجلی کی پیداوار کے شعبے میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری ایک چیلنج ہوگا کیونکہ اس کا انحصار کئی عوامل پر ہوگا۔ ایک بینادی مسئلہ نرخوں میں ردوبدل کا ہے جس کے باعث مارکیٹ کی ازسرنو تشکیل دیے جانے کا امکان ہے۔ لیکن بجلی کی طلب و رسد کا خلاء پُر کرنے اور2017 ءء تک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرنے کیلئے اگر اس ضمن میں سرمایہ کاری نہ ہوسکی تو کیا ہوگا؟ 5000 ہزار میگا واٹ کی اضافی استعداد کیلئے تقریباً 7.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ اگر یہ سرمایہ کاری نہ آئی تو کیا ہوگا؟ حکومت کے مطابق وہ خطرہ مول لے کر سرکاری شعبے میں منصوبے لگائے گی جس کا بالآخر مقصد انکی نجکاری ہوگا۔ حکومت کہاں اور کیسے یہ سرمایہ کاری حاصل کریگی اس سوال کا جواب ابھی تک نہیں ملا۔ طویل مدت کیلئے پانی سے بجلی بنانے کے متواتر منصوبوں کی منصوبہ بندی پر بھی اسی قسم کے سوالات کھڑے ہوتے ہیں حالانکہ یہ مستقبل میں توانائی کے تحفظ کیلئے ضروری ہے۔توانائی کے شعبے کیلئے حکمت عملی کی دستاویز بھی آرزومندانہ ہے جیسے، شروع میں بجلی کی نرخوں میں ردوبدل کرنا لیکن بالآخر سستے ذرائع کا استعمال اور بجلی کی چوری سے نمٹ کر اسکے نرخوں میں کمی کرنا خوش تعبیری سے انتظامی نقصانات کہلائے گے۔ بجلی کے نرخوں میں ردوبدل کی تذویر 3 سالوں میں سبسڈیز کو ختم کرکے وقت کے ساتھ ساتھ صارفین تک اصل نرخ منتقل کرنے پر مبنی ہے۔ لیکن زیادہ اور فوری ضرورت صنعتی، کمرشل اور رہائشی اور بجلی کا زائد استعمال کرنے والے صارفین کیلئے نرخوں میں اضافے کی ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے اس اقدام کی سب سے زیادہ مخالفت حکومت کے اپنے سیاسی حلقے یعنی صنعتکاروں اور تاجروں کی جانب سے ہوگی۔ اس لیے حکمراں جماعت کو ایسے دباوٴ سے نبردآزما ہوکر اپنی پالیسی کے نفاذ کیلئے سیاسی چاہ بروئے کار لانا ہوگی۔وقت کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخوں کو کم کرنے کے ہدف کو حاصل کرنے کا انحصار کئی عوامل پر ہوگا جن میں سستا ایندھن، اعلٰی کارکردگی، پورے نظام کے مالی نقصانات کو کم کرنا اور بجلی کی چوری کے خلاف کریک ڈاوٴن کرنا اور بجلی کے غیر ادا شدہ بلوں کی بڑی حد کی وصولی شامل ہے۔ اس کے بعد تیسرے ہدف کی باری آتی ہے جو کہ ٹرانسمیشن اور ترسیلی نقصانات کو کم کرکے کارکردگی دکھانے کے حوالے سے ہے۔چیلنجز بے تحاشا ہیں، پہلا، تکنیکی نقصانات کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار کا تخمینے کم یا اس میں بددیانتی کا ہونا ہے۔ تکنیکی نقصانات کے علاوہ بجلی چوری سے ہونے والے نقصانات پر اس عمل کے مرتکب ہونے والوں کے خلاف سخت کارروائی سے قابو پایا جائیگا، اس ضمن میں نادہندگان کے کنکشنز کاٹنا اور قانون متعارف کراکے بجلی چوری کو جرم قرار دیا جائے۔ چیلنج یہ ہوگا کہ کس طرح نظام میں راسخ ہوجانے والی بدعنوانی کو شکست دی جائے جس کی مدد کے بغیر اتنے بڑے پیمانے پر بجلی چوری نہیں ہوسکتی تھی۔بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کے ضمن میں صوبوں کے وفاق کے ذمے واجب الادا ہیں جو کہ کافی عرصے سے قومی مسئلہ بنا ہوا ہے اور اس سے زیادہ رقوم نجی شعبے کے ذمے واجب الادا ہیں۔چاروں صوبوں اور فاٹا اور آزاد کشمیر کے کل واجبات 103 ارب روپے جبکہ نجی شعبے کے 281 ارب روپے ہیں۔صوبوں میں سندھ 44.7 ارب روپے کے ساتھ سرفہرست ہے، آزاد کشمیر 24 ارب روپے، 20.2 ارب روپے فاٹا، خیبر پختون خوا 19.5 ارب روپے، وفاقی حکومت کے محکمے4.6 ارب روپے اور پنجاب کی واجب الادا رقم کا حجم3.8 ارب روپے۔تصفیئے کیلئے وفاقی افسر کی مدد سے موجودہ طریق کار کو مستحکم کرنے کا حکومتی خیال اور اسے وفاق کی جانب سے صوبوں کو دیے جانے والے وسائل میں سے بجلی کے واجبات کی پہلے سے کٹوتی کا نفاذ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ صوبوں کا اس پر اتفاق ہو، جس کی عدم موجودگی میں توانائی کی تذویر کے اہم حصّے کا نفاذ نہیں ہوسکے گا۔ لہٰذا اس کا زیادہ انحصار مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی ) کے اجلاس پر ہوگا کہ حکومت اس کا کیسے انعقاد کرتی اور آیا یہ اس کی مدد سے حزب اختلاف کے زیر انتظام دوصوبوں کا اتفاق رائے بھی حاصل کرسکتی ہے۔توانائی کے منصوبے کے کئی اور بھی حصے ہیں جو یہاں جگہ کی کمی کے باعث زیر قلم نہیں آسکتے۔ زائد طلب کی انتظام کاری ان میں سے ایک ہے اور حکومت کا بالآخر بجلی ساز اور بجلی کی ترسیل کار کمپنیوں کی نجکاری کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
توانائی پالیسی فوری طور پر وضع کرنے کی کوششوں پر حکومت تعریف کی مستحق ہے۔ لیکن ا سے اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کیلئے خواہشات کے اعلامیے سے زیادہ غیر متزلزل عزم کا مظاہرہ کرنے، مضبوط سیاسی چاہ، غیر معمولی سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے ہنر اور مستقل تذویری سمت کی ضرورت ہے۔ افسرشاہی کے کلچر کو تبدیل کرنا جو کہ ہمیشہ سے عمدہ کارکردگی اور اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور سرکاری شعبے کے محکموں کو اہل خدمت گزار اداروں میں تبدیل کرنا بھی بڑے چیلنجز میں شامل ہے۔
تازہ ترین