• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خاور نیازی

میری اُس سے دوستی 2003 ء میں اُس وقت ہوئی تھی، جب وہ ایک بڑے میڈیاگروپ سےوابستہ تھا۔ اُس کا اور میرا دفتر آمنے سامنے تھا۔ ہم دونوں کے فرصت کے لمحات اکثر اکٹھے ہی گزرتے تھے۔اور کہیں نہیں، تو لاہور پریس کلب ہی چلے جاتےکہ یہ ہمارے دفاترسے چند قدم کی دُوری پر تھا۔وہ نہ صرف بہت اچھا لکھاری ،بلکہ کئی کتابوں کا مصنف بھی تھا۔ اسے تاریخ، بالخصوص پاک و ہندکی تاریخ اورحالاتِ حاضرہ پر عبور حاصل تھا۔

ایک دن جب مَیں پریس کلب میں ایک تقریب سے فارغ ہوا تو ذہن میں آیا کہ کیوں نہ اس سے ملتا چلوں۔ پھراس کے دفتر پہنچتے ہی مَیں نے کہا ’’یار! اچھی سی کافی بنواؤ۔‘‘ کہنے لگا ’’کیوں نہ آج کسی اچھی جگہ گپ شپ کرتے ہوئے کافی پیئں؟‘‘ تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں مال روڈ کے ایک کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے۔ ایسا بہت کم ہی ہوتا تھا کہ مَیں مال روڈ جاؤں اور انارکلی کی ایک تنگ سی گلی میں واقع اولڈ بک شاپس نہ جاؤں۔کسی زمانے میں اس گلی میں پرانی کتابوں کی بے شمار دُکانیں ہوا کرتی تھیں،جہاں ہر وقت کتابوں کے شائقین کا جھمگھٹا لگا رہتا ،مگر افسوس اب سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کو کتاب سے بالکل ہی لاتعلق کردیا ہے۔ 

جس کے سبب اس کتاب دوست مارکیٹ کی رونقیں بھی ماند پڑ گئی ہیں، بس معدودے چند دُکانیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ پہلےسیکڑوں ڈالرز کی غیر مُلکی کتب کے پائریٹڈ ایڈیشنز محض چند سو روپوں میں مل جاتے تھے ۔ گویا شائقینِ کُتب کے ساتھ طلبہ کے لیے یہ دُکانیں کسی نعمت سے کم نہ تھیں۔ خیر، کافی پیتے پیتے جب مَیں نے اپنے دوست سےکتاب گلی جانے کوکہا تو وہ فوراً ہی تیار ہو گیا کہ وہ بھی وہاں کا مستقل گاہک ہے۔ کتاب گلی پہنچ کر مختلف دُکانوں کی کتابیں کھنگالتے کھنگالتے ہم اس مخصوص دُکان پر پہنچ گئے، جہاں مَیں ہمیشہ آخر میں جاتا تھا ۔

یہ سب سے مختلف نوعیت کی دُکان اس لیے بھی تھی کہ اس پر کتابوں کا ذخیرہ دوسری دُکانوں کی نسبت کہیں زیادہ، گاہکوں کی تعداد محدود اور دکان دار کا رویّہ انتہائی سرد ہوتا تھا۔ دُکان دار کا مخصوص انداز یہ تھا کہ وہ ہمیشہ دکان کے داخلی راستے میں ایک کرسی پر آڑا،ترچھا بیٹھا ہوتا، نظریں اندر آنے والے گاہکوں اور باہر گلی کے درمیان متواتر گھومتی رہتیں۔

کسی کتاب سے متعلق پوچھو تو بِنا گاہک کی طرف دیکھےجواب دیتا ’’خود ہی ڈھونڈلو ‘‘ قیمت پوچھو تو جواب دیتا’’پہلے صفحے پر پینسل سے درج ہے۔‘‘ایک مرتبہ ایک کتاب جس کی مجھے کافی عرصے سے تلاش تھی،نظر آگئی۔ مَیں نےقیمت دیکھی تو سات سو روپے لکھی تھی۔ مَیں نے کہا’’محترم! یہ تو سیکنڈہینڈ کتاب ہے،جب کہ نئی کتاب آٹھ سو روپے میں مل رہی ہے۔‘‘جواباً میری طرف دیکھے بغیر بولا’’بہتر ہو گا ،آپ نئی ہی خرید لیں۔‘‘

اُس کی شخصیت کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ بات کرتے ہوئے اپنا رُخ تبدیل نہیں کرتا تھا، جہاں دیکھ رہا ہوتا،وہیں دیکھتا رہتا، خواہ نظریں دیوار ہی پر کیوں نہ مرکوز ہوں۔ مَیں اکثر سوچتا تھا کہ کبھی اس سے اس آدم بے زاری کی وجہ پوچھوں، لیکن یہ سوچ کر کہ ’’جو اپنے کاروباری معاملات تک میں روکھا سا جواب دیتا ہے،وہ بھلا اپنی ذات کے بارے میں کسی کو کیوں کچھ بتائے گا‘‘ کچھ پوچھنے کی ہمّت نہ ہوئی۔ 

مگر، آج جانے کیسے مَیں نے ہمّت کر کے بات نکالنے کے لیےاس سے پوچھ ہی لیا ’’جب کتابیں بکتی نہیں، تو غصّہ آتا ہے؟‘‘چہرے پر ہلکی سی ناگواری لاکر بولا ’’بھائی!کیوں نہیں آتا‘‘ اورساتھ پڑی ایک کتاب غور سے دیکھنے کے بعد لہراتے ہوئےکہنے لگا ’’یہ اور اس جیسی لاتعداد کتابوں کی وجہ سے مجھے ہمیشہ نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اگر لوگوں کو لکھنا نہیں آتا، تو وہ اس جیسی بے تکی کتابیں لکھتے ہی کیوں ہیں،جو سالوں میرا منہ چڑاتی رہتی ہیں۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے کتاب واپس پٹخ دی اور دوبارہ گلی کی طرف ٹکٹکی باندھ لی۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ جس کتاب کے بارے میں وہ بات کر رہا تھا ، وہ میرے اُسی دوست کی انعام یافتہ کتاب تھی ،جو میرے ساتھ آیا تھا۔ بس جی ،پھر کیا تھایہ دیکھ کر ہم دنوں کِھسیانے ہوکرخاموشی سے گردن جُھکا کر دُکان سے باہر آگئےکہ مزید کچھ پوچھنے کی ہمّت ہی نہ ہوئی۔

تازہ ترین