• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ’’جرگہ‘‘ میں کوشش کی تھی کہ پاکستان سے متعلق افغانستان کا مقدمہ اورشکوہ ان کے دلائل کے ساتھ بیان کرسکوں اور حسب وعدہ آج پاکستان کا جوابی مقدمہ اور جوابی شکوہ بیا ن کروںگا۔یہاں بھی پاکستانی مقدمہ سے میرا مکمل اتفاق ضروری نہیں لیکن محض تفہیم کی خاطر اسے اپنے الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش کررہا ہوں۔
پاکستان کا موقف ہے کہ نائن الیون کے بعد اس نے اپنے اثاثہ سمجھے جانے والے طالبان کے خلاف کارروائی میں حصہ ڈال کر انہیں اور پاکستان میں ان کے ہمدردوں کو اپنا دشمن بنایا اور آج تک ملک کے اندر ان کی سیکورٹی فورسز ان کی مزاحمت میں جانوں کے نذرانے پیش کررہی ہیں۔ حامد کرزئی کو حکمران بنانے اور ان کی حکومت کو مضبوط کرنے میں امریکہ اور اتحادیوں کے ساتھ تعاون کیا لیکن حکمران بنتے ہی امریکہ اور افغان حکومت نے وہاں بلوچ عسکریت پسندوں کو اڈے دیدئیے، ہندوستان کو پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے کی آزادی دی ۔ ڈیورنڈ لائن اور پختونستان کے مسئلوں کو دوبارہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔ سوویت یونین اور ایران کے ماضی کو تو بھلا دیا گیا لیکن افغان قیادت پاکستان کے ماضی کو بھلانے پر آمادہ نہ ہوئی۔پاکستان میں حکمران یا اراکین پارلیمنٹ افغانستان کو کبھی بھی دشمن ملک کے طور پر یاد نہیں کرتے لیکن افغانستان میں حکومتی عہدیداروں کی طرف سے پاکستان مخالف بیانات روز کا معمول ہے اور پارلیمنٹ کے اندر اسے دشمن ملک کے طور پر یاد کرنا فیشن بن گیا ہے ۔ اسی طرح اگرچہ پاکستانی میڈیا میں بھی افغانستان کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا ہوتارہتا ہے لیکن یہاں امریکہ ، ہندوستان ،برادرعرب ملک اور اب ایران وغیرہ کے بارے میں بھی ایسا دیکھنے کو ملتا ہے لیکن افغان میڈیا میں صرف اور صرف پاکستان کے خلاف زہراگلا جاتا ہے ۔ پاکستان میں اگر میڈیا اور سیاست میں افغان مخالف آوازیں موجود ہیں تو یہاں سیاستدانوں اور میڈیا کی صفوں میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو پاکستان سے زیادہ افغانستان کی وکالت کرتے ہیں لیکن افغان میڈیا میں پاکستان کے حق میں کلمہ خیر سننے کو نہیں ملتا ۔ پاکستان میں بلوچستان کے ایک صوبائی وزیر نے جب افغان مہاجرین کے خلاف بات کی تو اس پر ان کی سخت پکڑ کی گئی اور انہیں اپنے الفاظ واپس لے کر معذرت کرنی پڑی لیکن افغانستان میں کمانڈر رازق جیسے لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جوپاکستان سے زندگی کے آخری دم تک لڑنے اور معاذ اللہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔
افغان حکومت اب یہ مطالبہ کررہی ہے کہ افغان طالبان کے خلاف پاکستان کارروائی نہیں کررہا ہے لیکن ماضی میں اس کی اور امریکہ کی خاطر پاکستان میں افغانستان یا طالبان کے سابق سفیر عبدالسلام ضعیف کو گرفتار کرکے حوالے کیا گیا، جس سے طالبان بھی شدید برہم ہوئے اور پوری دنیا میں پاکستان کی سبکی بھی ہوئی ۔ اسی طر ح گلبدین حکمت یار کے داماد اور سابق سفیر ڈاکٹر غیرت بھیر کو بھی گرفتار کرکے ان کے حوالے کیا لیکن انہیں کچھ عرصہ بعد خود افغان حکومت نے رہا کیا ۔ ڈاکٹر غیرت بھیر تو پاکستان کے بارے میں آج بھی مثبت خیالات رکھتے ہیں اور یہاں ہی مقیم ہیں لیکن عبدالسلام ضعیف نے کتاب لکھ کر ہندوستان سے شائع کرائی ، جس میں پاکستان پر لعن طعن کی گئی اور اب وہ کابل میں آزادانہ سرگرمیاں کرکے طالبان کے حق میں بولتے رہتے ہیں ۔میرے ساتھ انٹرویو میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا دعویٰ تھا کہ پاکستان نے انہیں ہندوستان کی را کی سرگرمیوں سے متعلق کوئی ثبوت نہیں دیا لیکن پاکستان کا کہنا یہ ہے کہ ٹھوس شواہد نہ صرف موجودہ حکومت کے حوالے کئے گئے ہیں بلکہ سابق صدر حامد کرزئی کو بھی دئیے گئے تھے ۔ افغان صدر کا دعویٰ ہے کہ مولانافضل اللہ کے خلاف گیارہ مرتبہ کارروائی کی گئی لیکن پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ کارروائیاں ان کے علم میں نہیں ۔ سابق صدر حامد کرزئی نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں مولانا فقیر محمد کی کابل میں موجودگی ( انہوں نے یہ تاویل پیش کی تھی کہ وہ ہماری قید میں ہیں) کا اعتراف کیا تھا۔ پاکستان کی انٹیلی جنس اور سفارتی حلقے تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ مولانا فضل اللہ کا کابل تک آنا جانا رہتا ہے اور یہ کہ حکیم اللہ محسود کا علاج بھی کابل کےاسپتال میں ہوتا رہا۔ پاکستان کا کہنا یہ ہے کہ افغان حکومت جن افراد کی ہلاکت یا پاکستان کو حوالگی کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے ، وہ خود پاکستان کے موقف کی دلیل ہے کہ پاکستان مخالف عناصر کو افغانستان میں ٹھکانے ملے ہوئے ہیں ۔ مثلاً میرے ساتھ انٹرویو میں افغان صدر نے کریڈٹ لینا چاہا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کی دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ خلیفہ عمر منصور (نرے) کے خلاف کارروائی کرکے نشانہ بنایا گیا لیکن پاکستان کا کہنا یہ ہے کہ وہ افغان حکومت کا نہیں بلکہ امریکہ کا کریڈٹ ہے ۔ اسی طرح پاکستان کا موقف ہے کہ لطیف اللہ محسود کو امریکیوں نے رقم سمیت ایسے عالم میں گرفتار کیا تھا کہ جب وہ کابل میں ’’را‘‘ اور این ڈی ایس کے حکام سے ملاقات اور رقم حاصل کرنے کے بعد واپس آرہے تھے ۔ اور اگر پاکستانی سرزمین پر ملااختر منصور کا مارا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان طالبان کے ٹھکانے پاکستان میں ہیں تو پھرخلیفہ عمر منصور ، شاہداللہ شاہد اور دیگر پاکستان مخالف طالبان کا افغان سرزمین پر مارے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں ۔ افغان حکومت یہ احسان جتاتی ہے کہ صدر اشرف غنی جی ایچ کیو گئے اور یادگار شہدا پر پھول چڑھا کر پاکستان کو عزت دی لیکن پاکستان کا موقف ہے کہ یہ پاکستان کی طرف سے ان کی عزت افزائی تھی اور جی ایچ کیو میں ان کو وہی پروٹوکول دیا گیا جس طرح کہ پاکستانی صدر یا وزیراعظم کو دیا جاتا ہے ۔ اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مفاہمت کی فضا کے ایام میں اگر افغان طالبان نے بعض ایسی کارروائیاں کیں کہ جس میں بڑی تعداد میں افغان مرگئے تو اس عرصے میں افغان سرزمین سے اے پی ایس، بڈھ بیر اور کئی دیگر حملوں کی منصوبہ بندی ہوئی لیکن پاکستان نے اس کا الزام افغان حکومت پر عائد کیا اور نہ مفاہمت کے سلسلے کو منقطع کیا ۔ اس کے برعکس جب بھی افغانستان میں طالبان نے کوئی بڑی کارروائی کی تو افغان حکومت کی طرف سے پاکستان کے خلاف بیانات دئیے گئے ۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغان حکومت ایک طرف پاکستان سے مطالبہ کررہی ہے کہ وہ طالبان کو ان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرے اور دوسری طرف ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے اور ظاہر ہے یہ دونوں کام ساتھ ساتھ نہیں ہوسکتے ۔ پاکستان اس معاملے کو بین الافغان تنازع سمجھتا ہے اور نہیں چاہتا ہے کہ کسی بھی افغان (خواہ وہ افغان طالبان کیوں نہ ہوں) کے ساتھ اس کی پاکستانی سرزمین پر جنگ ہو۔ جس طرح ملابرادر کی گرفتاری کو آج تک پاکستان کے لئے کریڈٹ کی بجائے طعنہ بنا دیا گیا ہے ، اسی طرح اگر کسی اور افغان طالب کے خلاف پاکستان نے کارروائی کی تو افغان حکومت کل اس سے متعلق بھی یہی رویہ اپنا سکتی ہے۔ اسی طرح وقت نے ثابت کردیا ہے کہ جس کسی کو بھی پاکستان نے ناراض کیا ہے ، اس پر امریکہ، ہندوستان یا ایران نے ہاتھ رکھنے میں دیر نہیں لگائی اور افغان حکومت سمیت کوئی بھی اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ افغان طالبان کے خلاف پاکستان کی کارروائی کی صورت میں کوئی اور ملک ان کی سرپرستی کے لئے نہیں آئے گااور انہیں اسی طرح پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا جس طرح کہ ٹی ٹی پی کو کیا گیا۔ افغان حکومت اگر یہ واضح کردے کہ وہ کسی صورت طالبان سے مذاکرات نہیں کرے گی تو پھر پاکستان کے لئے ان پر دبائو بڑھانا آسان ہوجائے گا اور یا پھر اگر مذاکرات چاہتی ہے تو پھر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ چھوڑ نا ہوگا ۔ پاکستان کا یہ بھی موقف ہے کہ افغان طالبان اس طرح ان کی مٹھی میں بند نہیں ہیں جس طرح کہ افغان حکام کا خیال ہے اور بڑی محنت کے بعد جب ان کے نمائندوں کو مری میں افغان حکام کے سامنے بٹھا دیا گیا تو اس عمل کو افغان سائیڈ سے ملاعمر کی موت کی خبر لیک کرکے سبوتاژ کیا گیا اور پھر مری مذاکرات کو پاکستان کے خلاف ایک ثبوت اور ہتھیار کے طور پر استعما ل کیا گیا ۔ افغان صدر کا میرے ساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے رہنما اس طرح ان کی حکومت کی دستاویزات کے ساتھ آزادانہ نہیں پھر رہے ہیں جس طرح کہ ملا اختر منصور پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے ساتھ گھوم رہے تھے جس کے جواب میں پاکستان کا موقف ہے کہ پاکستانیوں نے افغانی دستاویزات بھی نہیں بنائی ہیں لیکن افغانستان کے تو صدارتی امیدواروں تک نے پاکستانی شناختی کارڈ بنارکھے ہیں ۔ اسی طرح افغانستان میں لاکھوں پاکستانی مہاجرین نہیں رہتے کہ جن کی آڑ لے کر پاکستانی طالبان یا بلوچ عسکریت پسند وہاں پر رہ رہے ہوں لیکن پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین رہتے ہیں۔ جب مہاجرین کی نگرانی سخت کردی جاتی ہے تو بھی افغان حکومت واویلا کرتی ہے لیکن دوسری طرف مہاجرین کو واپس لے جانے کے لئے بھی افغان حکومت اقدامات نہیں کرتی ۔ اسی طرح افغان حکومت کی یہ شکایت ،کہ پاکستان میں بیٹھ کر طالبان افغانستان میں کارروائیاں کرتے ہیں ، اس صورت میں دور کی جاسکتی ہے کہ جب بارڈر پر آمدورفت کو قانونی اور منظم بنایا جائے لیکن بارڈر مینجمنٹ کے لئے پاکستانی حکومت جب کوئی قدم اٹھاتی ہے تو افغان حکومت مزاحمت کرتی ہے ۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ 2013 میں اس وقت کے افغان صدر نے چیکر (برطانیہ) میں سہ فریقی کانفرنس میں بارڈر مینجمنٹ پر اتفاق کیا تھا لیکن پاکستان کی طرف سے افغان حکومت کو بار بار یاددہانی کے باوجود افغان حکومت نے اس سلسلے میں تعاون نہیں کیا ۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے میرے ساتھ انٹرویو میں دونوں طرف کے دعوئوں اور اقدامات کی نگرانی کے لئے تھرڈ پارٹی (چین یا امریکہ) کی ثالثی کی بھی پیشکش کی جس کے جواب میں پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان مخلص نہ ہوتا تو چار فریقی کوآرڈنیشن کمیشن میں امریکہ کے ساتھ چین کی شمولیت کا مطالبہ نہ کرتا اور اگر واقعی پاکستان نے اس عمل کی کامیابی کے لئے مخلصانہ کوشش نہیں کی تو پھر اس معاملے میں چین اور امریکہ بھی ، افغان حکومت کے ہمنوا ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے ۔پاکستان کا یہ بھی موقف ہے کہ اگر وہ مخلص نہ ہوتا تو پھر آئی ایس آئی اور این ڈی ایس کے مابین تعاون کے معاہدے کی پیشکش نہ کرتا لیکن اس کوشش کو آئی ایس آئی کی طرف سے نہیں بلکہ افغان این ڈی ایس کی طرف سے رد کردیا گیا۔
تازہ ترین