• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیجنگ میں حالیہ قیام کے دوران فوجی گاڑی پر حملے کی خبر سامنے آئی تو بہت تکلیف ہوئی۔عالمی میڈیا کے ساتھ ساتھ چین کے مقامی میڈیا نے بھی پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ہونے والے افسوسناک واقعہ کی کوریج کی۔کراچی میں دو سال سے سے جاری آپریشن کے بعد اس قسم کا واقعہ پیش آنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔جبکہ دوسری طرف کراچی سے ہی آنے والی قائم علی شاہ کی تبدیلی کی خبر نے بھی سیاسی ایوانوں میں ہلچل مچائی ہوئی ہے۔آئندہ چند روز سندھ کی صورتحال کے حوالے سے اہم دکھائی دے رہے ہیں۔آگے چل کر تفصیلی تبصرہ کریں گے کہ موجودہ حالات میں چین عالمی دنیا بالخصوص پاکستان کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے۔کیا چینی واقعی پاکستان میں بڑی تبدیلی دیکھ رہے ہیں؟پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے سویلین اور عسکری قیادت کے درمیان تناؤ پر چین کی کمیونسٹ پارٹی کیا رائے رکھتی ہے؟
کراچی میں منگل کی شام ایک ایسا واقعہ پیش آیا ،جس کے لئے مذمت معمولی لفظ معلوم ہوتا ہے۔فوج کی گاڑی کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں دو اہلکاروں کی شہادت نے پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا۔کراچی آپریشن جو پچھلے 31ماہ سے جاری ہے۔اس دوران 848سے زائد ٹارگٹ کلرز کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کیا۔ دو سال سے زائد جاری آپریشن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانا کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے ،مگر موٹر سائیکل سواروں کا دیدہ دلیری سے سرعام فوجی گاڑی پر فائرنگ کرنا بہت سے حقائق سے پردہ اٹھا تا ہے۔کیونکہ اس سے قبل ٹارگٹ کلرز نے ہمیشہ پولیس ودیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ٹارگٹ کیا ہے۔جس میں رواں سال کے دوران 18اہلکار شہید ہوئے ہیں مگر یہ پہلی مرتبہ ہے کہ فوجی جوانوں پر براہ راست گولیاں برسائی گئی ہیں۔ پاکستان سے آنے والی اس خبر نے سفارتی حلقوں میں گہرے اثرات مرتب کئے۔ایک بار پھر مختلف حلقوں میں کراچی آپریشن کے حوالے سے تلخ باتیں شروع کردی گئی ہیں۔اس واقعہ پر چین میں بھی گہری تشویش پائی جارہی ہے۔جس کا براہ راست تعلق سندھ کے وزیراعلیٰ کی تبدیلی سے جوڑا جارہا ہے۔عمومی رائے ہے کہ گزشتہ آٹھ سال سے منصب پر فائز قائم علی شاہ جو نہیں کرسکے اب وہ مراد علی شاہ کریں گے۔وزیراعظم سمیت تمام ادارے سید قائم علی شاہ کو بطور وزیراعلیٰ سندھ کراچی آپریشن کا کپتان کہتے رہے ہیں۔دوران آپریشن کپتان کی تبدیلی اور نئے کپتان کا آتے ہی حالیہ صورتحال سے نپٹنا بڑا چیلنج ہوگا۔
تھرکی صورتحال ہو یا 2010سیلاب کی تباہ کاریاں، شہر قائد میں قتل عام ہو یامتحدہ قومی موومنٹ کو سیاسی دباؤیہ وہ چیلنجز تھے جو بار بار قائم علی شاہ کی کرسی کو ہلاتے رہے مگر شاہ جی اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے ہمیشہ اس صورتحال کو مات دیکر پارٹی قیادت کا اعتماد حاصل کرتے رہے۔یہ کئی سو ملین ڈالر کا سوال ہے کہ اس بار ایسا کیا ہوا کہ قائم علی شاہ کی فرمانبرداری اور طویل وفاداری بھی انہیں نہ بچا سکی۔اطلاعات ہیں کہ قائم علی شاہ بیک وقت آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری دونوںکا اعتماد کھو چکے تھے۔کراچی اور اندرون سندھ میں حکومتی کارکردگی سے بلاول سخت نالاں تھے۔جبکہ آصف زرداری کی رائے تھی کہ قائم علی شاہ بے شک پارٹی کے وفادار ساتھی ہیں مگر بہت سے حساس معاملات پر ہمت سے کھڑے نہیں ہوسکتے۔سندھ میں رینجرز کی کارروائیاں اور ڈاکٹر عاصم کے معاملے میں ان کی کارکردگی سے زرداری کوئی خاص خو ش نہیں تھے۔اسی لئے پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین نے قائم علی شاہ کو رخصت کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئےاپنے قابل اعتماد ساتھی مراد علی شاہ کو اس منصب کے لئے نامزد کیا۔گوکہ وزیراعلیٰ ہاؤس مراد علی شاہ کے لئے نیا نہیں ہے کیونکہ اپنے والد عبداللہ شاہ کی وزارت اعلیٰ کے دور میں وہ یہیں قیام کرتے رہے ہیں مگر اب حالات مکمل بدل چکے ہیں۔2013کے انتخابات سے قبل دہری شہریت پر نااہلی بھی ان کی قسمت میں آئی مگر جلد ہی وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ کینیڈا کی شہریت وہ پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں۔مراد علی شاہ اور ان کے والد عبداللہ شاہ کے درمیان ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں کو کراچی آپریشن ورثے میں ملا ہے۔عبداللہ شاہ جب وزیراعلیٰ تھے تو ایم کیو ایم کے خلاف ریاستی آپریشن پوری آب و تاب کے ساتھ جاری تھا اور آج مراد علی شاہ کے منصب سنبھالنے سے قبل بھی ایم کیو ایم کو ایک بڑے آپریشن کا سامنا ہے۔مراد علی شاہ کے والد کے دور میں ہی مرتضی بھٹو ،الطاف حسین کے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین کی ہلاکتیں ہوئی تھیںاور جس وقت آصف زرداری نے نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم کے خلاف ہونے والے آپریشن کے بعد نائن زیرو کا پہلا دورہ کیا اور شہدا قبرستان میں جاکر فاتحہ پڑھی تو مراد علی شاہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔اس لئے مراد علی شاہ اور آصف زرداری کی رفاقت بہت پرانی ہے اور اگر کہا جائے نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب سو فیصد زرداری کا بطور فرد واحد ذاتی فیصلہ ہےتو یہ غلط نہیں ہوگا۔
کالم کے آغاز میں جس طرح گزارش کی تھی کہ چین میں کراچی سے جڑے دونوں بالا معاملات کو خاصی اہمیت دی جارہی ہے۔بیجنگ میں حالیہ قیام کے دوران تاثر ملا ہے کہ حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی چائنا پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بہت سنجیدہ ہے۔اقتصادی راہداری کے حوالے سے عسکری و سیاسی قیادت کے درمیان پائے جانے والے تناؤ سے چین بخوبی آگاہ ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ چینی مستقبل میں سیاسی قیادت کے ساتھ تعلقات رکھنے میں زیادہ سنجیدہ ہیں۔پنجاب کے وزیراعلیٰ جو ان دنوں چین کے طوفانی دورے پر ہیں۔اتفاقیہ طور پر بیجنگ میںموجودگی کی وجہ سے ان کی مصروفیات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔بزرگ چینی بتاتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب چین کی سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی نے کسی غیر ملکی مہمان کو غیر معمولی پروٹوکول دیا ہے۔چین کے سینئر سفارتکاروں اور حکمران جماعت کے قریبی حلقوں کی رائے ہے کہ چین کی حکمران جماعت اب پاکستان میں ذاتی تعلقات بھی پروان چڑھانے کا فیصلہ کرچکی ہے،اسی لئے کمیونسٹ پارٹی پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن سے ذاتی روابط بڑھا رہی ہے۔یہ تمام حالات وواقعات واضح پیغام ہیں کہ چین اقتصادی راہداری سمیت تمام مستقبل کے فیصلوں میں پاکستان کی سیاسی قیادت پر انحصار کررہا ہے۔ چین پاکستان سمیت پوری دنیا میں جمہوریت کو پنپتا دیکھنا چاہتا ہے اور چین میں حالیہ قیام کے دوران کمیونسٹ پارٹی کے صف اول کے رہنماؤں نے اپنے رویے سے اس بات کو ثابت کیا ہے۔آج چینی کراچی سمیت ملک بھر میں ہونے والے تمام واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیںاور ان کی رائے ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل سے ہی ادارے بہتر اور مضبوط ہونگے ۔



.
تازہ ترین