• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کو کہاگیا، اچھانہیںلگتا میئرجیل میں ہو، وزیراعلیٰ سندھ

کراچی (رپورٹ / شاہد جتوئی ) وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ کراچی کا منتخب میئر جیل میں ہو لیکن قانون کے مطابق ہر ایک کو مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا ۔ کراچی میں 22 اگست کے پرتشدد واقعات کے بعد بلدیاتی اداروں کے آخری مرحلے کے انتخابات کو ملتوی کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن میں نے کہا کہ یہ انتخابات ہوں گے ۔ اچھی حکمرانی کے ایسے معیارات قائم کرنا چاہتا ہوں کہ میرے بعد آنے والے انہیں ختم نہ کر سکیں اور لوگ ان کے عادی ہو جائیں ۔ غلط کاموں کا ذمہ دار میں ہوں گا ۔ اچھے کا کریڈٹ اپنی ٹیم کو دوں گا ۔ سندھ کے بارے میں میرا وژن کوئی راکٹ سائنس نہیں ، ایک جملے میں ہے کہ میں اکیلا مسائل حل نہیں کر سکتا ، ہر کوئی اپنا کام کرے ۔ وہ جمعرات کو مقامی ہوٹل میں ’بریک فاسٹ ود جنگ ‘میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے ۔ تقریب میں جنگ گروپ کے سید سر مد علی اور سکندر لودھی نے وزیر اعلیٰ کا خیر مقدم اور اظہار تشکر کیا ۔ تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی ممتاز شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ کراچی کا منتخب میئر جیل میں ہو لیکن ہر ایک کو قانون کے مطابق مقدمات کا سامناکرنا ہو گا بحیثیت سیاست دان مجھ پر بھی فوجداری اور سو ل مقدمات بنے ۔ میں نے بھی ان کا سامنا کیا لیکن کسی کی سیاسی ایذا رسانی نہیں ہونی چاہئے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے یہ انکشاف کیا کہ 22؍ اگست کو کراچی کے پرتشدد واقعات کے بعد 23؍ اگست کی صبح انہیں سب سے پہلے اسلام آباد سے چیف سیکرٹری سندھ کی کال آئی اور چیف سیکرٹری سندھ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے آخری مرحلے کے انتخابات کیا ملتوی کر دیئے جائیں ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میں نے واضح کیا کہ انتخابات ملتوی نہ کیے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی اور جگہ اس طرح کا واقعہ ہوتا تو شاید 24؍ اگست کو الیکشن نہیں ہوتے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ مجھے منصب سنبھالے ایک ماہ سے کم کا عرصہ ہوا ہے ۔ سندھ کے بارے میں میرا وژن کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے ۔ بس یہ ہے کہ ہر کوئی اپنا کام کرے تو مسئلے حل بھی ہوں گے اور ترقی بھی ہو گی ۔ میں نے اپنے ساتھی وزراء اور افسروں سے کہا کہ صبح 9 بجے کام کا آغاز کریں ۔ ابتدائی طور پر مجھے اچھا رسپارنس ملا ہے ، اب میرا فرض ہے کہ میں اس کا کو آگے لے کر جاؤں اور قیادت کا کردار جاری رکھوں ۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کا قیام حکومت کا پہلا فرض ہے ۔ میں نے سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ میں 8 سال تک ان کی کابینہ میں رہا ۔ انہوں نے کہا کہ امن وامان کا اصل مسئلہ کراچی میں ہے ، جسے حل کرنے کے لیے ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا گیا ۔ اس میں کامیابی تب ہو گی ، جب پولیس اور سویلین فورسز معاملات کو خود سنبھال سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ہاؤسز اور میڈیا کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے میں نے ایک اپنا منصوبہ بنا لیا ہے ۔ 22؍ اور 23؍ اگست کی درمیانی شب میں دیر تک جاگتا رہا اور حالات کو مانیٹر کرتا رہا ۔ صبح ساڑھے 7؍ بجے آنکھ کھلی تو ٹی وی چینل پر یہ فوٹیج دیکھی کہ بچے وین میں بیٹھ کر اسکول جا رہے ہیں ۔ اس سے لوگوں میں اعتماد آیا ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ بیورو کریٹس کے خلاف ایکشن بھی ہو اہے لیکن ہم نے اس کی تشہیر نہیں کی کیونکہ اس سے بیورو کریٹس کا مورال ڈاؤن ہوتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ توانائی کے شعبے پر بھی توجہ دی جا رہی ہے ۔ پاکستان کے توانائی کے مسئلے کا حل سندھ کے پاس ہے ۔ سندھ میں فوسل فیول اور توانائی کے دیگر ذرائع بھی موجود ہیں ۔ تھر میں کوئلے کے پاور پلانٹس میں 51؍ فیصد حصص سندھ حکومت کے ہیں ۔ سندھ حکومت کی تھر میں سرمایہ کاری دو ارب ڈالرز تک ہو جائے گی ۔ میں دوسرے صوبوں سے سندھ کا موازنہ نہیں کرتا ، جب میرے پاس ہی پاکستان کے توانائی کے مسئلے کا حل موجود ہے تو مجھے ہی کام کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ثقافت اور کھیل کے وزراء بھی بہت سرگرم ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں اور یقیناً میرے پیش نظر بھی 2018 کے عام انتخابات ہیں ۔ کوشش ہو گی کہ میں حکمرانی کے ایسے معیارات مقرر کر جاؤں کہ کوئی انہیں واپس نہ کر سکے ۔ پہلے ہمارا کلچر یہ تھا کہ 11 ، 12 بجے سے پہلے کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ اب افسران مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہم صبح 9 بجے آجائیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پولیس کی ریکروٹمنٹ میں مسلح افواج کی مدد لی ہے ۔ ہم پولیس فورس میں اضافہ کر رہے ہیں ، سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے لیے 10 ارب روپے کی سمری منظور کر لی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ سندھ نے پولیس آرڈر 2002 پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ قانون برا ہے لیکن مجموعی طور پر اچھا قانون نہیں ہے ۔ اگر اچھا قانون ہوتا تو اسے آئینی تحفظ نہ دیا جاتا اور یہ نہیں کہا جاتا کہ فلاں مدت تک اسے ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ قانون فوجی آمر کے وقت بنا تھا ۔ انہوںنے کہا کہ ترقیاتی منصوبہ بندی میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں اور میں یہ نہیں کہتا کہ آئندہ نہیں ہوں گی لیکن ہم کوشش کریں گے کہ ان غلطیوں پر قابو پایا جائے ۔ ہمارے پاس 100 روپے ہوتے تھے تو ہم 1000 روپے کا منصوبہ بنا لیتے تھے ، جس کی وجہ سے اس منصوبے کی تکمیل میں 10 سال لگ جاتے تھے ۔ اب ہم کوشش کر رہے ہیںکہ ایسا نہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے لیے 19 اسکیموں کی نشاندہی کی گئی اور ان تمام اسکیمز کے لیے فنڈز موجود ہیں ۔ میں نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالتے ہی پہلا اجلاس کراچی پیکیج کے حوالے سے کیا۔ انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے کارپوریٹ سیکٹر سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ محکمہ خزانہ اور محکمہ توانائی کے دفاتر میں جا کر اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ سندھ واحد صوبہ ہے ، جس نے بجلی کی ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کمپنی بنائی ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے نیب آرڈی ننس 1998 پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ قانون بھی فوجی آمر کے زمانے میں بنا تھا ۔ چیئرمین نیب کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی جگہ کو نظر بندی مرکز قرار دے دیں ۔ ایسے ڈریکونین قوانین نہیں بننا چاہئیں ۔ کرپشن پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں بیورو کریٹک ریفارمز بھی لانا چاہتا ہوں ۔ سندھ حکومت میں ایک افسر 50 ہزار روپے ماہانہ پر کام کرتا ہے ۔ اسی افسر کو نجی شعبے میں 10 لاکھ روپے تنخواہ ملتی ہے ۔ صرف احتساب ہی نہیں ہوتا اور بھی بہت ساری چیزیں کرنا ہوتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی شہر میں امن وامان کو بہت حد تک کنٹرول کر لیا گیا ہے ۔ شہری مسائل بھی حل کر رہے ہیں ۔ منتخب بلدیاتی ادارے بھی کام شروع کر دیں گے اور وہ میرا ہاتھ بٹائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بحیثیت وزیر اعلیٰ وزیر اعظم سے پہلی ملاقات میں کہا تھا کہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے سندھ بہت مشکلات کا شکار ہے ۔ وزیر اعظم نے خواجہ آصف صاحب سے بات کی تھی ۔ خواجہ آصف کا مجھے فون آیا تھا ۔ اس حوالے سے 2 اجلاس بھی منعقد کر چکے ہیں ۔ صورت حال بہتر ہو رہی ہے ۔ وفاقی حکومت سے قانونی معاملات کی وجہ سے سندھ کے 180 میگاواٹ کے 2 پاور پلانٹ بند پڑے ہیں ۔ ان کا مسئلہ بھی حل کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ رینجرز کے معاملے کو زیادہ اچھالا جاتا ہے حالانکہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے ۔ رینجرز 1989 ء سے سندھ میں موجود ہیں ۔ ایک ایک سال کی مدت کے لیے ان کی توسیع ہوتی ہے ۔ 27 سال میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ مدت ختم ہونے سے پہلے توسیع ہو جائے کیونکہ توسیع میں بیورو کریسی کے پروسیس کی وجہ سے کچھ تاخیر ہو جاتی ہے ۔ مجھے کسی نے نہیں کہا کہ سندھ حکومت اور رینجرز کا کوئی مسئلہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں حالات کو بہت حد تک کنٹرول کر لیا گیا ہے ۔ باقی سندھ میں بھی امن وامان کی صورت حال بہتر ہے ۔
تازہ ترین