• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں جاپانی اسپتال ۔وزیر اعلیٰ سندھ توجہ فرمائیں

اب سے صرف ڈھائی برس قبل یعنی مارچ 2014میں منعقد ہونے والی وہ تقریب کراچی میں بسنے والے کم از کم ان غریب بچوں کے والدین کے ذہنوں میں ابھی پوری تازگی کے ساتھ موجود ہوگی جس میں حکومت جاپان کی جانب سے کراچی میںڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے بچوں کے اسپتال کی تعمیر کا افتتاح کیا گیا تھا، کراچی کے مضافاتی علاقے نیو کراچی میں اس اسپتال کی ضرورت اس لئے بھی محسوس کی جارہی تھی کہ یہاں موجود سرکاری اسپتالوں میں ہر سال چالیس لاکھ سے زائد بچوں کو علاج و معالجے کے لئے لایا جاتا تھا تاہم وسائل اورجگہ کی کمی کے پیش نظر ان بچوں کو دیگر سرکاری اسپتالوں میں منتقل کردیا جاتا تھا جہاں پہلے ہی مریضوںکی بڑی تعداد ہوتی تھی ۔حکومت سندھ کی درخواست پر یہ مسئلہ جاپانی سفارتخانے کے ذریعے حکومت جاپان کے نوٹس میں لایا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جاپانی حکومت نے کراچی کے اس مضافاتی علاقے میں بچوں کے لئے جدید اور شاندار اسپتال کے قیام کے لئے فوری طور پر ڈیڑھ ارب روپے کی گرانٹ کی منظوری دیدی اور چند ماہ کے اندر یعنی مارچ 2014 میں وہ دن بھی آگیا جس دن اسپتال کی تعمیر کا افتتاح کیا جانا تھا، اس روز تقریب میں وفاقی وزیر مملکت برائے ماحولیات اور کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ڈاکٹر سکندر علی ماندھرو پاکستان میں جاپان کے سفیر ہیروشی اینوماتا، جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی جائیکا کے چیف متسویوشی کاواساکی موجود تھے، یہ منصوبہ جاپان کی سرکاری پالیسی کے تحت جائیکا کی نگرانی میں مکمل ہونا تھا، تقریب میں حکومت پاکستان ،حکومت سندھ اور جاپانی سفیر سمیت جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی کی اہم ترین شخصیات بھی موجود تھیں، اس موقع پر جاپان کے پاکستان میں سابق سفیر ہیروشی اینوماتا نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ جاپان جو بھی امداد اپنے دوست ممالک کو فراہم کرتا ہے اس میں شہریوں کو اعلیٰ معیار کی طبی سہولتوں کی فراہمی کا شعبہ سب سے اہم ہےاس لئےجیسے ہی حکومت سندھ نے سرکاری طو ر پر جاپان سے صحت کےشعبے میں تعاون کی درخواست کی تو جاپانی حکومت نے فوری طور پر اس منصوبے کے لئے تقریباََ ڈیڑھ ارب روپے کی گرانٹ منظور کی اور فوری طو رپر یہ منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور آج کی اس تقریب کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ جاپان پاکستان اور یہاں کے عوام کو کس قدر اہمیت دیتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ منصوبہ دونوں ممالک کے پہلے سے موجود بہترین تعلقات میں مزید اضافے کا سبب بنے گا ۔اس تقریب میں جائیکا کے چیف سمیت وفاقی وزیر نے بھی خطاب کیا اور پاکستان اور جاپان کے درمیان موجود دوستانہ تعلقات پر روشنی ڈالی ۔
یہ تو تھا اس تاریخی دن کا احوال جب جاپانی حکومت کی جانب سے بطور تحفہ فراہم کئے جانے والے اس شاندار اسپتال کے قیام کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان عہد و پیمان ہوئے، لیکن آج کراچی کے علاقے نیو کراچی میں جاپانی حکومت کی نگرانی اور تعاون سے ڈھائی سو بیڈ پر مشتمل یہ عظیم اسپتال حکومت سندھ کی توجہ کا طالب ہے، اس اسپتال کے قیام کے حوالے سے جاپانی حکومت اور حکومت سندھ کے درمیان معاہدے کے تحت جاپانی حکومت نہ صرف اسپتال کی تعمیر کو ممکن بنائے گی بلکہ اسپتال کے لئے جدید آلات اور بستروں کا انتظام کرے گی جبکہ اسپتال کے قیام کے بعد یہ اسپتال سندھ حکومت کے حوالے کردیا جائے گا جسے سندھ حکومت چلائے گی، اب سے دس ماہ قبل ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے یہ شاندار اسپتال تعمیر ہوگیا، یہاں جاپانی حکومت کی جانب سے جدید ترین ایکس رے، الٹرا سائونڈ سمیت جدید ترین لیبارٹری بھی قائم کی گئی ہے تاکہ بچوں کو لاحق بیماریوں کی تشخیص جدید طریقے سے کی جاسکے، دس ماہ گزر چکے ہیں اسپتال کی تعمیر کو لیکن سندھ حکومت کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وزیر صحت یا سیکرٹری صحت اس اسپتا ل میں سرکاری ڈاکٹروں کی تعیناتی کرسکیں، ابھی تک اسپتال میں ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل اسٹاف تعینات نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہاں مریضوں کا علاج شروع نہیں ہوسکا ہے، اس حوالے سے کراچی میں تعینات جاپانی قونصل جنرل تا شو کازو ایسو مورا بھی حکومت سندھ کے اعلیٰ حکام کی توجہ اس حل طلب مسئلے کی جانب کراچکے ہیں لیکن یہاں بھی ہماری بیوروکریسی جاپانی حکام کو تسلیاں دیکر چلتا کرتی نظر آتی ہے کیونکہ جاپانی قونصل جنرل کو بھی یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ عنقریب یہاں اسٹاف کی تعیناتی شروع ہونے والی ہے لیکن ایسا ہوا نہیں ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت سمیت میڈیا بھی جاپانی حکومت سے امدا د کے معاملے میں ہمیشہ ہی ڈو مور کہتا نظر آتا ہے ،کبھی سرکلر ریلوے کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے تو کبھی ین لون کی لیکن اب جاپانی بھی ہم سے یہ پوچھتے نظر آتے ہیں کہ جو امداد آپ کو دے دی گئی ہے اس کو آپ نے کس طرح استعمال کیا ہے، ان سوالوں میں اب سب سے اہم سوال کراچی میں بچوں کے اسپتال کے بارے میں کیا جاتا ہے جو ڈیڑھ ارب کی لاگت سے ایک سال قبل تعمیر ہوچکا ہے لیکن حکومت کے پاس ڈاکٹر اورپیرا میڈیکل اسٹاف ہی موجود نہیں ہے جنھیں یہاں تعینات کیا جاسکے، جبکہ بعض ناقدین تو یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ ماضی میں جاپان کی جانب سے فراہم کی جانے والی امداد میں کرپشن کی شکایات آنا شروع ہو ئیں تب سے جاپان نے تمام منصوبے اپنی نگرانی میں مکمل کرانا شروع کردئیے جس سے جاپانی امداد میں کرپشن کے دروازے بند ہوچکے ہیں لہٰذا اس کے بعد سے ہی کرپٹ مافیا کی جاپان کی جانب توجہ کم ہونا شروع ہوگئی ہے یہی وجہ ہے کہ کراچی کے لئے جاپانی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اسپتال اپنے قیام کے ایک سال بعد بھی لاوارث حالت میں موجود ہے جس کا کوئی پرسان حال نظر نہیں آتا لیکن جاپانی حکومت اپنے اس منصوبے پر آنکھیں بند کیے نہیں بیٹھی ہے اور اس منصوبے کی بے توقیری جاپان کی جانب سے پاکستان کے لئے مستقبل میں دی جانے والی امداد پر اثر انداز ہوسکتی ہے، تاہم سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ جو متحرک بھی ہیں اور سندھ اور کراچی کی ترقی مین دلچسپی بھی رکھتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ جاپانی حکومت کی جانب سےبنائے جانے والے غریب بچوں کے اس اسپتال کو فوری طور پر قابل استعمال بنانے کے لئے اقدامات کریں جو پاکستان اور جاپان کی دوستی میں پڑنے والے کسی بھی طرح کے شگاف کے خلاف اہم قدم ہوگا اور سندھ کے غریب عوام میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت میں بھی اضافہ کا سبب بنے گا ۔

.
تازہ ترین