• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان کے 2؍نومبر کے احتجاجی دھرنے کے اعلان پر حکومت پریشان ہو یا نہ ہو، کم از کم تاجر طبقہ اور عام افراد زیادہ پریشان نظر آ رہے ہیں، اس کی وجہ یہ کہ اس روز نہیں، بلکہ کئی روز تک اس سے انہیں ایک سے دوسری جگہ آنے جانے سے لے کر کئی چیزوں کی خرید و فروخت میں بھی پہلے سے زیادہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ طبقہ اس لئے بھی زیادہ پریشان ہے کہ ہم تو پہلے ہی کئی مشکلات اور حصول روزگار کے حوالے سے لاتعداد مسائل سے دوچار ہیں، ملک میں حکومتی دعوئوں کے برعکس SMEاور دوسرے شعبوں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہی نہیں ہو رہے۔ بلکہ پہلے سے موجود مواقعوں میں بھی کمی ہو رہی ہے۔ اس طرح مہنگائی حکومتی اعدادوشمار کے مطابق تو ختم ہو رہی ہے یا کم ہو رہی ہے جبکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ شاید اسی وجہ سے لاہور سمیت مختلف شہروں میں PTIکے شو یا عمران خان کے احتجاج دن بدن بہتر پوزیشن میں جا رہے ہیں، اور جو افراد اور خواتین عمران خان سے مایوس ہو رہے تھے وہ اب دوبارہ واپس آرہے ہیں، اس صورتحال کا قومی سطح پر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آخرکار ہماری قوم کو احتجاج کی طرف کیوں لے جایا جا رہا ہے یا قوم اس طرف مائل کیوں ہو رہی ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارے ماہرین نفسیات کو بھی قوم کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ دوسری طرف ریاست کا نظام چلانے والوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے بنیادی مسائل پر فوری توجہ دیں ورنہ انہیں آئندہ انتخابات میں اپنے ان ہمدردی رکھنے والوں سے بھی محروم ہونا پڑ سکتا ہے جو گزشتہ 40,35سال سے شریف خاندان اور خاص کر میاں نواز شریف کے ساتھ چل رہے ہیں، اسلئے پہلی ترجیح حکومت کی یہ ہونی چاہئے کہ وہ کم از کم اگلے کچھ عرصہ کیلئے وہ اعلانات اور دعوے کرے جنہیں وہ پورا کر سکتی ہے اس لئے کہ اب ملک سے آہستہ آہستہ نعروں کی سیاست ختم ہو رہی ہے اور عوام وعدوں پر نہیں عملدرآمد پر یقین رکھ رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے حکومت کی ساکھ بہتر ہو سکے گی اور اس کے بعد اسے اپوزیشن اور خاص کر عمران خان کو کمزور کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نواز شریف جیسے میمو گیٹ کیس میں بلا وکیل خود سپریم کورٹ میں چلے گئے تھے۔ اب بھی ایک موقع ہے کہ وہ پاناما گیٹ یا ایشو کو ٹھنڈا کرنے یا اس کو کمزور کرنے کے لئے اللہ کا نام لے کر خود سپریم کورٹ میں پیش ہو کر تمام حقائق کو اپنی اور اپنے خاندان کی حالیہ تقاریر اور دعوئوں کی روشنی میں ایسا بیان دے دیں، جس سے ان کی گرتی ہوئی ساکھ کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے۔ ورنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جو بھی آئے، اس سے پہلے کئی معاملات اور واقعات ان کے لئے پریشانی کاباعث بن سکتے ہیں۔ جس سے ان کے لئے کئی نئے ایسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جس سے ملک اور معیشت دونوں بھی متاثر ہوں گے اور سیاسی نظام کو بھی دھچکہ پہنچ سکتا ہے۔


.
تازہ ترین