• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ہمیشہ بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں اور بڑے بڑے ٹارگٹ اپنے اوپر مسلط کر لیتے ہیں جن کو پورا کرنا بلا آخر ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا لہذاجب ان کا بڑے طم طراق سے شروع کیاہوا شو اختتام پذیر ہوتا ہے تو انہیں سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس بار بھی یہی ہوا۔ بار بار کہا گیا کہ کم سے کم ایک ملین کامجمع اسلام آباد لایا جائے گا تاکہ دارالخلافہ کو 2 نومبر کو لاک ڈائون کر دیا جائے اور پھر نہ حکومت چلے اور نہ ہی حکومت نام کی کوئی چیز پاکستان میں موجود رہے۔ انہوں نے جو کہہ دیا وہ پتھر پر لکیر ہے اور پھر وہ ضدی بچے کی طرح اس پر ڈٹے رہتے ہیں۔ پہلے وزیراعظم نوازشریف کی رائیونڈ میںنجی رہائش گاہ پر احتجاج کا منصوبہ تھا جب سب نے اس کی مذمت کی تو ارادہ بدل کر اڈا پلاٹ پر جلسہ کر لیا۔اسی طرح اسلام آباد کے لاک ڈائون کے پلان کو بھی بلا آخر ایک جلسے کی شکل دے دی جس میں ایک ملین لوگوں کی شرکت تو کجا اس میں تو صرف چند ہزار افراد ہی موجود تھے۔ لاک ڈائون کے منصوبے پر بھی تقریباً ہر سیاسی جماعت نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ان کو منع کرتی رہی کہ احتجاج کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔
اپنی گزشتہ 3سال سے زائد بھر پور سیاسی کمپین میں چیئرمین پی ٹی آئی نے ہمیشہ پنجاب پر فوکس کیا اور کم سے کم اپنا 95 فیصد وقت اسی صوبے میں ہی صرف کیا تاکہ یہاں وہ حکومت کی مقبولیت کو کم کر سکیں مگر ان کے لاک ڈائون کے خواب کی تکمیل میں پنجاب نے انہیں انتہائی مایوس کیا کیونکہ یہاں کے کسی بھی شہر سے ہزاروں تو چھوڑ سینکڑوں لوگوں نے بھی یہ کوشش نہیں کی کہ وہ اسلام آباد پہنچیں۔ بلا شبہ صوبائی حکومت نے بڑے سخت اقدامات کئے تھے کہ اس غیر قانونی حرکت کو ہر صورت روکا جائے مگر ہر دور میں ہرانتظامیہ یہی کچھ کرتی ہے تاہم پھر بھی سیاسی کارکنوں کا جذبہ اور جوش ضرور نظر آتا ہے۔پنجاب کے بظاہر بڑے بڑے لیڈر بشمول شاہ محمود قریشی ٗ جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان عمران خان کی بنی گالہ رہائش میں ہی رہے جبکہ ان کے کارکن آنسو گیس کا مزہ چکھ رہے تھے اور انہوں نے ایک بار بھی کوشش نہیں کی کہ کم سے کم اپنے حلقے کی حد تک نہ ہی سہی کم ازکم اپنے اپنے شہروں میں جاکر ہی کوئی چند افراد کو لاک ڈائون کے لئے اسلام آباد لائیں۔تاہم خیبر پختونخواہ کو کریڈٹ جاتا ہے کہ وہاں سے چند ہزار لوگوں نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی سربراہی میں کوشش تو کی کہ وہ اسلام آباد پہنچیں مگر یہ بھی چند ہزار لوگ برہان انٹر چینج کے نزدیک چند سو ہی رہ گئے تھے جنہیں عمران خان نے واپس جانے کا کہا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر یہ اسلام آباد پہنچ بھی گئے تو مجمع کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہوگی۔
عمران خان اکثر و بیشتر کہتے ہیں کہ جب بھی ان کی کوئی ایجی ٹیشن کامیاب ہونے والی ہوتاہے تو دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہو جاتا ہے جیسے کہ 2014کے دھرنے کے دوران آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ اور اس کے بعد حال ہی میں کوئٹہ میں پولیس کیڈٹس اور وکلاء پر دہشت گردی۔مگر اس بار کیا ہوا کہ انہوں نے اچانک لاک ڈائون کو جلسے میں تبدیل کردیا یہ تو صرف وہی بتا سکتے ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ لاک ڈائون کو ترک کرنے کی اصل وجہ عوام کی عدم شرکت ہے جس نے ان کے شو کو بری طرح فلاپ کر دیا۔ جب لوگ ہی نہیں آئے تو وہ ’’فیس سیور‘‘کی تلاش میں تھے۔ عدالت عظمیٰ میں پاناما لیکس پر ہونے والی کارروائی کو انہوں نے بہانا بنایا اور لاک ڈائون کو خیر آباد کہہ دیا یہ کہتے ہوئے کہ اب اس کی ضرورت نہیں کیونکہ ’’تلاشی‘‘ شروع ہو گئی ہے۔ یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ 20اکتوبر کو ہی سپریم کورٹ نے پاناما لیکس پر کارروائی شروع کرتے ہوئے وزیراعظم اور دوسروں کو نوٹس جاری کر دیئے تھے۔وہ عمران خان کے لئے بہترین وقت تھا کہ وہ لاک ڈائون کو چھوڑ دیتے اور کہتے کہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں کیونکہ عدالت نے مداخلت کر دی ہے اور تلاشی شروع ہو گئی ہے مگر بدقسمتی سے انہوں نے پھر وہی بات دہرائی کہ وہ لاک ڈائون کا پروگرام جاری رکھیں گے۔ جس طرح کا اعتماد وہ اب سپریم کورٹ پر کر رہے ہیں انہیں چاہئے تھا کہ وہ 20 اکتوبر کو ہی کر دیتے۔
اب انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ خون خرابے کے ڈر سے لاک ڈائون کی کال واپس لی۔ کوئی بے شعور ہی کہہ سکتا ہے کہ اس قسم کا احتجاج خون خرابے کے بغیر ہو سکتا ہے۔ یہ بچگانہ سوچ تھی کہ حکومتی مشینری ایسی ایجی ٹیشن پر خاموش تماشائی بنی رہے گی۔سب کو معلوم ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی لاشوں کی تلاش میں تھے مگر سخت حکومتی اقدامات نے لاشوں کی سیاست کو روکا اور کوئی انسانی جان ضائع نہ ہوئی۔ پی ٹی آئی کس دیوانگی کی حد تک لاشوں کی تلاش میں تھی کہ اس نے یہ جھوٹا دعویٰ بھی کر دیا کہ کے پی میں اس کے 2کارکن پنجاب پولیس کے تشدد سے مارے گئے ہیں۔ اس جھوٹ کو نہ صرف پرویز خٹک بلکہ کے پی حکومت کے دوسرے ترجمانوں نے بھی سختی سے رد کردیا اور بعد میں پی ٹی آئی نے خود بھی اس کی تردید کر دی۔اسلام آباد پر اپنے تازہ ترین حملے میں بری طرح ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ اپنے سیاسی طرز عمل پر کچھ سنجیدگی سے غور کرے اور سوچے کہ آخر مسئلہ کیا ہے اور کہاں ہے۔ جب سے اسے 2011میں مقبولیت ملی ہے اور جب سے وہ 2013کے انتخابات میں ووٹوں کی ایک بڑی تعداد حاصل کر کے دوسری بڑی سیاسی جماعت بنی ہے اس نے پاکستان میں سیاسی انتشار پیدا کیا ہے اور ایک ایسا سیاسی کلچر متعارف کرایا ہے جس میںالزامات لگانا اور گا لیاں دینا عام سی بات ہے اس کی مثال پاکستان کی 70سال کی تاریخ میں نہیں ملتی۔خدارا پاکستان کو چلنے دیں اور لوگوں کو اپنی نارمل زندگی گزارنے دیں۔ نارمل سیاست کریں اور اپنی مقبولیت کے کمالات 2018کے انتخابات میں دکھائیں۔


.
تازہ ترین