• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں روس کے سفیر آندرے کارلوف کو قاتلانہ حملے میں ہلاک کردیا گیا، ادھر جرمنی کے شہر برلن میں کرسمس مارکیٹ میں ایک ہجوم پر ٹرک چڑھا دیا گیا جس کے نتیجے میں 9 افراد ہلاک اور 50سے زائد زخمی ہوگئے جبکہ سوئٹزر لینڈکے شہر زیورخ کی مسجد میں فائرنگ سے 3افراد زخمی ہوگئے۔ اسی طرح شام کی 5سالہ خانہ جنگی میں اب حلب میں بنتی ٹوٹتی فائربندی میں شہریوں کی ہلاکت بھی نہایت تشویشناک ہے۔ دنیامیں آئے روز بڑھتے ہوئےدہشت گردی کے یہ واقعات اب کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہیں۔ پہلی عالمی جنگ بھی اسی طرح بوسنیا میں ایک آسٹروی شہزادے کے قتل سے شروع ہوئی تھی۔ دنیا میں جس قدر انفرادی، گروہی اور ریاستی دہشت گردی کے واقعات پے در پے رونما ہورہے ہیں ان سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ دنیا دارالامن نہیں دارالحرب بن چکی ہے۔ آج کی دنیا ایک گلوبل ویلج ہے، اس لئے دہشت گردی ہو یا امن اس کی لہریں کسی ایک خطے یا علاقے تک محدود نہیں رہتیں، وہ دور دور تک جاتی ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں میں مختلف ترقی یافتہ بلکہ ترقی پذیر ممالک نے بھی تباہی و بربادی کے جو وسیع تر سازوسامان اکٹھے کر لئے ہیں ان کا عشر عشیر بھی سارے گلوب کونیست و نابود کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس انتہائی تشویشناک اور افسوسناک صورت حال میں امریکہ اور مغرب اور دیگر ممالک کو دہشت گردی کے بارے میں اپنا بیانیہ تبدیل کرنا ہوگا ۔سموئیل، ہٹنگٹن کی مغرب اوراسلام کے مابین تصادم کی دور اذکار تھیوری سے آگے بڑھنا ہوگا اور مسلمانوں کو موردالزام ٹھہرانے کی روش ترک کرنا ہوگی۔ اقوام متحدہ کے سائے تلے عالمی برادری کو یہ طے کر لینا چاہئے کہ اگر دنیا میں عدل و انصاف کا بول بالا کرنا ہے تو ظلم چاہے کسی ریاست کی طرف سے ہو، کسی گروہ کی طرف سے یا کسی فرد کی طرف سے اس کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ اس وقت سب سے زیادہ مخدوش صورتحال عالم اسلام کی ہے۔ عالم اسلام پر ایک نظر ڈالتے ہی آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ چھوٹے چھوٹے سیاسی و تزویراتی مفادات کے لئے عالم اسلام کے کئی بڑے ممالک میں کہیں براہ راست اور کہیں پراکسی جنگیں جاری ہیں۔ اس وقت یمن میں امن نہیں، تباہ حال شام گزشتہ پانچ برس سے خانہ جنگی کی آگ میں جل رہا ہے۔ افغانستان کئی دہائیوں سے امن کے لئے ترس رہا ہے، پاکستان گزشتہ پندرہ برس سے دہشت گردی کے خلاف ہر محاذ پر بھرپور جنگ لڑ رہا ہے۔ بھارت علاقے میں امن قائم کرنے اور مسئلہ کشمیر کو یو این او کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی بجائے وہاں ریاستی دہشت گردی اور ظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم کررہا ہے اور آئے روز پاکستان کی سرحدوں پر بلااشتعال گولہ باری کررہا ہے۔ یہ امر اور بھی افسوسناک ہے کہ حلب کی مخدوش صورتحال اور شام کی خانہ جنگی کے بارے میں منعقد ہونے والی ترکی، ایران اور روس کے وزرائے خارجہ کی ملاقات سے عین ایک روز پہلے انقرہ میں روسی سفیر کی ہلاکت امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی ایک سازش محسوس ہوتی ہے۔ دنیا کو دارالامن بنانے کے لئے ہر ملک کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔ تاہم اس حوالے سے بڑے ملکوں کی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ امریکہ، روس، یورپ اور چین اگر فی الحقیقت تیسری عالمی جنگ کے امڈتے ہوئے خطرات کو کماحقہ محسوس کرلیں گے اور اس تباہی و بربادی کا اندازہ لگالیں گے جو مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے آسکتی ہے تو وہ امن کو یقینی بنانے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنے پر کمربستہ ہو جائیں گے۔ اس وقت عالم اسلام خاص طور پر داخلی و علاقائی جنگوں اور دہشت گردی کی لپیٹ میں بڑی شدت سے آچکا ہے۔ لہٰذا ستاون مسلمان ملکوں کو یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اگر خدانخواستہ تیسری عالمی جنگ چھڑتی ہے تو پھر سب سے زیادہ نقصان اسلامی دنیا کا ہوگا۔ مسلمان ممالک کو آپس کے اختلافات طے کرنے کے لئے براہ راست یا پراکسی جنگوں کی بجائے باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات فی الفور حل کر لینے چاہئیں۔ عالمی برادری کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ تیسری عالمی جنگ سے محفوظ رہنے اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے ظلم کا خاتمہ کرنا ہوگا۔


.
تازہ ترین