• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوم سچ جاننا چاہتی ہے لیکن فریقین سچ نہیں بول رہے، وکیل عدالت کو مطمئن کریں، سپریم کورٹ

اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں/جنگ نیوز)سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ قوم سچ جاننا چاہتی ہے لیکن فریقین سچ نہیں بول رہے، وزیر اعظم کی کتاب زندگی کے کچھ صفحات غائب ہیں،جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ وزیر اعظم نے کچھ کہا بیٹوں نے کچھ، کس کی بات مانیں، اسے آدھا سچ کہیں یا آدھا جھوٹ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے خود دبئی فیکٹری کا اعتراف کیا، بار ثبوت ان پر ہے،جسٹس افضل نے کہا کہ مقدمہ میں ومیر اعظم کی نااہلی کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو آرٹیکل 66آڑے آئے گا جس میں پارلیمنٹ کی کارروائی کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتی،جبکہ وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم کی اسمبلی میں تقریر بیان حلفی نہیں تھا۔تفصیلات کے مطابق پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فاضل بنچ کے ججز نے ریمارکس دئیے ہیں کہ وزیر اعظم کی زندگی کھلی کتاب کے کچھ صفحات غائب ہیں، جائیداد کے اعتراف کے بعد بار ثبوت بھی ن لیگ پر ہے، نواز شریف کی وضاحت سے مقدمہ کلیئر نہیں ہوتا، تقریر کو غلط نہیں مانتے لیکن کوئی چیز چھپائی گئی تو پھر اسے آدھا سچ مانیں گے،سچ بیانات سے نہیں دستاویزات سے سامنے آئے گا، فریق نہیں چاہتے کہ سچ سامنے آئے، کبھی ایک رکاوٹ کھڑی کرتا ہے تو کبھی دوسرا،قوم سچ جاننا چاہتی ہے لیکن فریقین سچ نہیں بول رہے۔ اگر اس مقدمہ میں آئین کے آرٹیکل 62-Fکے تحت نااہلی کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو اس کی راہ میں آئین کا آرٹیکل 66بھی آئے گا جس کے تحت پارلیمنٹ کی کاروائی کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتی۔وزیر اعظم نواز شریف کی وضاحت سے مقدمہ کلیئر نہیں ہوتا اور وزیراعظم کے وکیل کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا۔ جمعرات کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزاراحمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پاناما کیس کی سماعت کی تو وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر موجود ہے جسے عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے بھی عدالت میں تسلیم کیا ہے۔ وزیر اعظم کے وکیل نے ان کا قوم سے خطاب عدالت میں پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا کسی آف شور کمپنی سے تعلق تھا اور نا ہے، نوازشریف کی برٹش ورجن آئی لینڈ میں کوئی کمپنی نہیں، وہ کسی بھی آف شور کمپنی کے ڈائریکٹر،شیئر ہولڈر یا بینیفشل بھی نہیں ہیں۔ درخواست گزاروں نے وزیر اعظم کی تقاریر میں تضاد کی بات کرکے ان کی نااہلی کی درخواست کی حالانکہ ان پٹیشنوں میں نواز شریف پر جھوٹ بولنے کا الزام ہی عائد نہیں کیا گیا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے خود پر عائد الزامات کی درست وضاحت نہیں کی۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ آپ کی ساری کہانی بی سی سی آئی بینک کے قرض سے شروع ہوتی ہے، دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ نواز شریف دبئی فیکٹری کے کبھی ڈائریکٹر نہیں رہے، دبئی مل کا سرمایہ بینکوں کا تھا، عدالت کمیشن بنائے جو دبئی جا کر جائزہ لے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم نے خود دبئی فیکٹری کا اعتراف کیا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے، وزیر اعظم کی تقریر فی البدیع نہیں بلکہ پہلے سے تحریرشدہ تھی، اعتراف کے بعد بار ثبوت آپ پر ہے۔ وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ قانون شہادت کے تحت بار ثبوت درخواست گزاروں پر ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ گلف اسٹیل مل ہونے یا نہ ہونے پر وقت ضائع نہ کریں، ساری دنیا گلف اسٹیل مل کو تسلیم کرتی ہے تو ہم کیسے تسلیم نہ کریں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ منی ٹریل آپ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا، نواز شریف کی وضاحت سے مقدمہ کلیئر نہیں ہوتا، وزیر اعظم کے وکیل کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا۔ قطری خط لندن فلیٹس کو لنک کرتا ہے لیکن نواز شریف نے تقریر میں ذکر نہیں کیا، کیا نواز شریف کا بزنس اور رقم سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر تعلق نہیں تو پھر لندن فلیٹس کی منی ٹریل کیسے دی۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ نواز شریف مقدمے میں زیر بحث کسی کاروبار یا جائیداد سے منسلک نہیں، التوفیق کیس میں بھی نواز شریف کا نام نہیں، وزیر اعظم کا جدہ اور دبئی میں اسٹیل مل کے قیام سے بھی تعلق نہیں، یہی بات وزیر اعظم اپنی تقریر میں کہہ چکے ہیں، ان کے بیان میں کوئی غلطی نہ تھی، نواز شریف کا معاملے سے کوئی تعلق نہیں، میاں شریف کی وفات کے بعد حسین نواز کو کاروبار منتقل ہوا، صادق اور امین ہونے کا ٹیسٹ سارے پارلیمنٹیرینز پر نافذ ہوگا، اسی وجہ سے ہم بہت زیادہ احتیاط کر رہے ہیں۔ عدالت دوسروں کے بیانات پر وزیر اعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتی، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے پاس کئی فوجداری مقدمات آتے ہیں اور عدالت واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر رائے قائم کرتی ہے۔ بعض مقدمات حالات و واقعات سے سچائی کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم تقریر سے پہلے کمیشن کی تشکیل کا کہہ چکے تھے، تقریر مشاورت سے کی گئی، سلمان بٹ نے عدالت میں کہا تھا کہ وزیر اعظم کی تقریر سیاسی تھی، ہم تقریر کو غلط نہیں مانتے لیکن کوئی چیز چھپائی گئی تو پھر اسے آدھا سچ مانیں گے۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اس معاملے میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونا چاہئے، میری زندگی کھلی کتاب کی مانندہے لیکن اس کھلی کتاب کے بعض صفحات غائب ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم نے سچ بولا یا ان کے بیٹے حسین نواز نے سچ بولا۔ اگر ایک نے سچ بولا تو دوسرے کا بیان سچ نہیں ہوگا۔ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں سچ بول رہے ہوں، میرا مقدمہ ہے کہ میں نے جھوٹ نہیں بولا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شریف خاندان کے بیانات میں تضاد ہے، ہمیں سچ کا پتہ چلانا ہے اور سچ بیانات سے نہیں دستاویزات سے سامنے آئے گا، سچ کو ثابت کرنے کے لئے ریکارڈ سے ثابت کریں کہ کس نے سچ بولا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب تک پیش کئے گئے دستاو یزات شواہد ہیں۔ کیا قانونی شہادت کو نظر انداز کردیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم کی پہلی تقریر عمومی تھی، دوسری تقریر میں وزیر اعظم نے بعض تفصیلات سے آگاہ کیا۔ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 184/3 میں اپنے دائرہ اختیار کو طے کر رکھا ہے۔ اگر اس کی دوبارہ تشریح چاہتی ہے تو دلائل دینے کے لیے تیار ہوں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ابھی یہ تعین ہونا باقی ہے کہ فلیٹس کب خریدے گئے؟ وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ عدالت کی توجہ پاناما لیکس پر ہے، وہ ہر معاملے پر عدالت کی معاونت کریں گے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم کو ہٹانے کا طریقہ تحریک عدم اعتماد ہے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ثابت ہو وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے۔ اگر کوئی بات رہ گئی تو اسے غلط بیانی نہیں کہا جاسکتا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کی شقوں کا اس مقدمے سے کیا تعلق ہے، یہ شقیں انتخابی عذرداری میں متعلقہ ہوسکتی ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ الیکشن کے بعد نااہلی کیلئے کووارنٹو کی درخواست دائر ہوسکتی ہے، دہری شہریت کے مقدمات میں عدالت عظمی میں بھی کووارنٹو کی درخواستیں دائر ہوئیں، دہری شہریت والوں نے عدالت میں اپنی دوسری شہر یت تسلیم کی، ہمارے سامنے یہ کیس ہے کہ کچھ بیانات دیئے گئے، جن پر نااہلی مانگی جارہی ہے، کیا اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے نااہلی کے ریفرنس دائر ہوئے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ اس معاملے پر داد رسی کا فورم اسپیکر قومی اسمبلی ہے، اسپیکر نے 2 اگست 2016 کو نااہلی کے ریفرنس خارج کردیئے تھے۔ عدالتی استفسار پر مخدوم علی خان نے کہا کہ اسپیکر کے بعد دوسرا فورم ہائیکورٹ ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس براہ راست بھی ریفرنس دائر ہوئے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت کے سامنے موجود درخواستیں دوسرے فورمز پر بھی موجود ہیں، دوسرے فورم پر معاملہ زیر التوا ہو تو کیا سپریم کورٹ میں کارروائی ہوسکتی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ شیخ رشید نے اسپیکر قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن میں درخواستیں دیں، آرٹیکل 62 پر نااہلی کیلئے عدالتی فیصلہ ہونا ضروری ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ درخواست گزار اگر کہے کہ پہلے ڈیکلریشن دیں پھر نااہل کریں پھر کیا ہوگا، اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا، یوسف رضا گیلانی کے مقدمے میں پہلے این آر او کیس کا فیصلہ ہوا، اس کے بعد عدالت نے عملدرآمد کا حکم دیا، فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کا نوٹس دیا، یوسف رضا گیلانی کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کی سزا دی، یوسف رضا گیلانی نے سزا پر اپیل دائر نہیں کی، عدالتی فیصلے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس ریفرنس گیا، اسپیکر نے ریفرنس خارج کیا تو عدالت عظمی نے ایک درخواست پر یوسف رضا گیلانی کو نااہل کیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قوم سچ جاننا چاہتی ہے، دونوں فریق چاہتے ہیں کہ سچ سامنے نہ آئے، ایک جانب جائیں تو دیوار کھڑی کر دیتے ہیں، آپ کی طرف آئیں تو آپ دیوار کھڑی کر دیتے ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کا معاملہ 184 تین کے دائرہ کار میں نہیں آتا، عوامی نمائندگی ایکٹ میں جھوٹا الزام لگانے کی سزا بھی پانچ سے 7 سال ہے، عدالت نے سماعت (آج) تک ملتوی کردی۔ واضح رہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔
تازہ ترین