• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی دُنیا میں کافی ہلچل پیدا ہوگئی تھی، بے چینی ہے تھی کہ وہ امریکہ کے موجودہ نظام کو تلپٹ کرنے جارہے ہیں، ایک متحرک صدر باراک اوباما کے بعد ایک تاجر، قدامت پسند، میڈیا اور انٹیلی جنس اداروں سے لڑتا ہوا صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب امریکی صدارتی کرسی پربراجمان ہے۔ اُس نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرح انتہاپسندی اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر الیکشن لڑا اور جیتا بھی۔ صدر اوباما، انٹیلی جنس اداروں اور میڈیا نے اُسکی جیت کو روس کی مرہون منت قرار دیا ہے، اخبارات نے ہیلری کلنٹن کی کامیابی کی نوید عوام کو پہلے ہی سنا دی تھی جس پر ایک اخبار نے اپنے قارئین سے باقاعدہ معافی مانگی، ٹرمپ کی سفید فام لوگوں اور بھارتی لابی نے کھل کر حمایت کی، انہوں نے انٹیلی جنس اداروں پر سخت تنقید کی، بظاہر وہ ایک منہ پھٹ اور سب سے لڑتےہوئے دکھائی دیئے۔ مسلمانوں، یورپ، تارکین وطن کو اگر ایک طرف رکھ دیا جائے، مگر اُن کا امریکی طاقتور اداروں سے لڑنااور اُن کو ترکی بہ ترکی جواب دینا بڑی عجیب بات ہے اور خصوصاً روس کی امریکی انتخابات میں مداخلت پر یہ کہنا کہ یہ وہی ادارے ہیں جنہوں نے عراق میں عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کی اطلاع دی تھی۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ کے نئے صدر ایک الگ ہی شخصیت کے مالک ہیں۔
وہ امریکی افواج اور امریکی انٹیلی جنس اداروں میں کمی لانے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ انکے مطابق یہ ادارے امریکی عوام کے گاڑھے پسینے کی کمائی لوٹ رہے ہیں اور لٹا رہے ہیں اور نتائج خاطرخواہ نہیں دے پارہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ واقعی اپنے اعلان کردہ پالیسی کے تحت مسلح افواج اور انٹیلی جنس اداروں میں کمی لاتے ہیں یا امریکی ادارے انہیں رام کرلیں گے۔ جیسا کہ باراک اوباما کو کیا تھا اور وہ فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کے موقف سے پسپا ہوگئے تھے ۔ ٹرمپ کا عالمی معاملات میں امریکی مداخلت کو دیکھنے کا زاویہ مختلف ہے، دُنیا بھر میں امریکی مداخلت امریکی بالادستی کو قائم کرنے کیلئے ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ دُنیا کیلئے امریکی افواج کا استعمال رضاکارانہ رہا ہے جو ایک قومی المیہ ہے۔ ہمارا خون اور ہمارا خزانہ اپنے اتحادیوں پر فیاضانہ طور پر خرچ کیا جارہا ہے جو انکی موجودہ سوچ کے مطابق غلط ہے، ٹرمپ کہتے ہیں کہ اپنی مسلح افواج کی جان کا تحفظ کیا جائے گا، قوت کے نظام کو قطع کرنا آسان ہے مگر نظریات کو توڑنا ناممکن ہے۔ اس سے ہمیں اتفاق ہے کہ اگر ایسا ہے تو امریکہ کے نظریات کیا ہیں، یہاں اُن کی پالیسی تبدیل نظر آتی ہے، مگر ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ وہ فوج کو جدید بنائیں گے، اس میں روبوٹ فوجی کے استعمال کو رائج کریں گے اور نینو ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ کریں گے۔ اُن کا خیال ہے کہ تیز رفتار سرجیکل اسٹرائیک کا طریقہ کار اپناکر وہ امریکی فوج کو بہت خطرناک بنا دیںگے۔یہ نظام مثالی نمونہ ہوگا کہ اگر کسی جگہ حملہ کرنا یا وہاں سے نکلنا ہو تو اس تیز رفتاری سے کیا جائے کہ میڈیا اس حملے سے بے خبر رہے اور مکمل ہونے پر وہ میڈیا کے سامنے منکر ہوجائے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ نظام انتہائی خطرناک ہتھیار ثابت ہوگا جو بحری راستوں کو محفوظ بنانے کیلئے استعمال ہوگا یا پھر اڈوں میں موجود فوجیوں سے سرجیکل اسٹرائیک کرائی جائے گی، اس طرح کہ وہ ہمارے سفیروں کو بازیاب کرا سکے، یوںوہ ایران اور لیبیا کا حوالہ دے رہے ہیں، یہ نظام امریکی شہریوں کو محفوظ بنائے گا اور اگر اِسکے استعمال کے دوران معاملات بگڑ جائیں تو قوم کو بتا دیا جائے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک کی حد کا تعین نہیں کررہے۔ اُن کی سرجیکل اسٹرائیک سے کوئی بھی ملک بشمول روس، چین اور پاکستان محفوظ نہیں رہ سکیں گے ، انکے اس بیان سے کسی جنگ کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک امیگریشن کا تعلق ہے تو اُن کے خیال میں امیگریشن کی پالیسی افراتفری کا شکار ہے جسکا دل چاہتا ہے منہ اٹھائے امریکہ چلا آتا ہے، وہ کہتے ہیں غیرقانونی امیگرنٹ کو روکا جائے گا۔ موجودہ نظام یہ ذمہ داری پوری نہیں کرسکتا، اسکے روک تھام کیلئے دو تہی نظام رائج کیا جائے گا ، ایک وہ جو نظر آئے جبکہ ایک خفیہ ہو، اگرچہ وہ امیگریشن کے حوالے سے کوٹے کے معاملے میں فیاضی سے کام لیں گے لیکن اِس فیاضی سے ناجائز فائدہ اٹھانے نہیں دیں گے، فیاضی کا ناجائز استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے، اُن کو ملک بدر کردیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کا ویزا بلاک کردیا جائے گا اور ویزے کی مدت کا خیال رکھا جائے گا۔ ویزے کی مدت سے زیادہ کسی کو رہنے نہیں دیا جائے گا تاہم جو لوگ امریکہ کو محفوظ بنا سکتے ہیں اُن کو ویزا کے معاملے میں ترجیح دی جائے گی۔ تعلیم کے حوالے سے اُن کی پالیسی اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے حوصلہ افزائی کی ہوگی، امریکی نوجوان اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب نہیں ہوتے، مگر ٹرمپ تعلیم کو ریاستوں کے حوالے کردیں گے جو اگرچہ ابھی بھی کسی حد تک ریاستوں کے پاس ہے مگر اس میں وہ اضافہ کریں گے اور ریاستیں نصاب بھی اپنی اقدار اور اپنے کلچر کے مطابق بنا سکیں گی۔ اسکے علاوہ امریکی نوجوان کو ڈسپلن کا پابند بنانے کی کوشش کریں گے، اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ امریکی نوجوان کو سائنس اور دیگر میدان میں اچھی تعلیم دلا کر باہر سے آنے والے ماہرین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو فارغ کردیں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بے روزگاری ختم کرنے میں اتنا آگے جائیں گے کہ امریکی عوام صنعتی انقلاب کو بھول جائیں گے۔ تجارتی پالیسی کے حوالے سے وہ مضبوط لائحہ عمل مرتب کرنا چاہتے ہیں، اس کیلئے کانگریس کے ممبران کو سخت جانفشانی کیلئے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ ٹرمپ انقلابی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں اور ایک نئی امریکی پالیسی وضع کرنا چاہتے ہیں، عین ممکن ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اُن کے جارحانہ عزائم کو اپنی ضرورت کا احساس دلا دے اور دُنیا میں کوئی بڑا دھماکہ کرکے حالات کا رُخ اسی طرح موڑ دے جیسا کہ 9/11 کے واقعہ کے بعد ہوا تھا۔ جس عالمی جنگ کی بات کی جارہی ہےڈونلڈ ٹرمپ اس کیلئے شاید بہت موزوں ہوں، مگر وہ ایک تاجر بھی ہیں، وہ اپنے ان مفادات کا خیال ضرور رکھیں گے جو دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اوباما نے جاتے جاتے اُن کیلئے مشکلات پیدا کردی ہیں، اسرائیل کی فلسطینی آبادکاری کے خلاف اقوام متحدہ کی قرارداد، روس کے خلاف پابندیاں، روسی سفارتکاروں کو بڑی تعداد میں امریکہ بدر کرنا، یہ ایسا ہی ہے جیسے بھاگتے بھاگتے تیروں کی بارش جو بڑی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔

.
تازہ ترین