• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ میں اتنا بھی برا نہیں ہو رہا۔ کوئی شک نہیں کہ نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کے تازہ سات مسلمان ممالک پر سفری یا امیگریشن پابندی کے حوالے سے امریکہ کے ہوائی اڈوں کے اندرونی مناظر امریکہ بھر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونیوالے سلوک کی کتاب کا دیباچہ بنے ہوئے ہیں۔ پکڑ دھکڑ ہتھکڑیاں، حراست، حوالگی اور امریکہ بدری۔ ہوائی اڈوں کی عمارتوں سے باہر امریکہ میں کیا ہو رہا ہے؟ یقین کریں ایسا لگا کہ جیسے حاجیوں کا استقبال ہو رہا ہو! کاش آپ بھی اپنے ملکوں کی زیر عتاب اقلیتوں کے ساتھ کچھ اس طرح کی یکجہتی کرسکتے!
لوگ ہیں کہ مسلمانوں کے حق میں کتبے، بینر اور جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں، نعرے لگا رہے ہیں۔ گویا کہ مسلم ممالک یا کسی بھی ملک سے آئے ہوئے تارکین وطن یا مسافران کرام کیلئے ائیر پورٹ کی عمارت سے باہر نکلتے ہی امریکیوں نے اپنی آنکھوں اور دلوں کی صورت ایک بہت بڑا سرخ قالین بچھا دیا ہے۔ مجھے ایک سندھی افسانہ نگار کی تحریر کردہ وہ کہانی یاد آ رہی ہے جو اس نے ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے زمانے میں لکھی تھی کہ مایوسی کے موسم میں امید عروسی جوڑا پہنے کھڑی ہے۔ نہ فقط وہ سندھی افسانہ مگر آج کے امریکہ میں مجھے پاکستان میں آمر ضیاءالحق کا زمانہ یاد آ گیا۔
لیکن یہاں امید محض امید نہیں نہ ہی وہ کہانی ہے جہاں امید عروسی جوڑا پہنے کھڑی ہے ۔ مگر یہ حقیقت ہے جس کی ایک جھلک گزشتہ سنیچر کی اس شام نیویارک سمیت ان امریکی ہوائی اڈوں پر دیکھنے کو ملی جہاں اک شیرخوار بچے سمیت ایک سو ستر کے قریب زیر حراست لئے گئے تارکین وطن یا مسلمان ان سات کالعدم ممالک کی پروازوں سے آئے مردوں، عورتوں اور بچوں کی دلداری اور داد رسی کیلئے امریکی وکلاء اور خاص طور پر ایک تاریخی تنظیم برائے امریکی شہری آزادیوں یا امریکن سول لبرٹیز یونین جسے ’’اکلو‘‘ کہا جاتا ہے سے تعلق رکھنے والے قانونی ماہرین نے ان لوگوں کی طرف سے امریکی وفاقی عدالتوں میں چند گھنٹوں میں مقدمے دائر کردئیے۔ نہ فقط مقدمے دائر کئے بلکہ وفاقی ججوں نے (جو بھی محض اتفاق تمام کی تمام تینوں جج خواتین ہیں) صدر ٹرمپ کے ایسے مسلم بندش والے صدارتی حکم کے اطلاق پر منع نامہ بھی جاری کردیا۔ ایک سو تیس ملین امریکیوں کی نمائندگی کرنے والے ایسے وکلاء میں گیارہ سابق اٹارنی جنرل شامل ہیں۔ بقول سابق اٹارنی جنرل ایرک شنائیڈر کے ’’سوال اب ریپبلکن اور ڈیموکریٹک کے درمیان تضاد کا نہیں بلکہ قانون کی برتری پر یقین رکھنے اور نہ رکھنے والے لوگوں کے درمیان ہے‘‘۔
ہم اور آپ جتنا بھی سابق صدر جارج ڈبلیو بش کو برا بھلا کہیں لیکن جب امریکہ پر گیارہ ستمبر کو دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا (جس میں بہر حال ٹرمپ کی طرف سے زیر بندش ممالک میں سے ایک بھی ملک کا شہری ملوث نہیں تھا) تو اپنے خطاب میں صدر بش نے کہا تھا:’’دہشت گرد ہماری عمارتوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، ہمارے انفراسٹرکچر اڑا سکتے ہیں لیکن ہماری وہ بنیادیں نہیں اڑا سکتے جن پر وہ آزادیاں کھڑی ہیں جو ہمیں امریکی آئین نے دی ہیں‘‘۔ جی ہاں۔ پھر اسی صدر بش نے جب ’’پیٹریاٹ ایکٹ‘‘ کے نام پر اقلیتوں یا تارکین وطن کی زندگی دوبھر بنا دی تو یہی امریکن سول لبرٹیز یونین کے وکلاء امریکی وفاقی عدالت میں گئے اور ایک عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’’بند دروازوں یعنی پابندیوں کے پیچھے جمہوریت گھٹ کر مر جاتی ہے‘‘۔ امریکی آئین کا یہ بھی کرشمہ ہے کہ امریکی صدر وفاقی عدالتوں یا سپریم کورٹ کے جج منتخب تو کرسکتا ہے لیکن ان کو ہٹا نہیں سکتا کہ وہ تاحیات ہوتے ہیں۔ پھر آپ نے دیکھا کہ پچھلے اختتام ہفتہ ٹرمپ کی طرف سے اس لطیفے والے چوہدری صاحب کے ’’آخری فیصلے‘‘ کے خلاف وفاقی عدالتوں نے ہنگامی طور پرحکم امتناعی جاری کردیا ۔ واشنگٹن بوسٹن اور نیویارک کے وفاقی ججوں نے۔
لیکن اس سے کئی گھنٹے قبل امریکی عوام کا ایک بڑا حصہ مرد، عورتیں اور بچے، گورے ہوں کہ کالے یا پھر کسی بھی نسل و رنگ و مذہب کہ لامذہب سب کا رخ ان بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی طرف تھا اور اب بھی وہ وہیں کھڑے ہیں احتجاج اور مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں کہ یہ ملک امریکہ ہے ہی تارکین وطن کی قوم اور امریکی قوم دنیا کی مثالی مہاجر۔ امریکہ کی بنیاد ہی دوسرے کو اپنا بنانے کے اصول پر قائم ہے۔
ابھی نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ کو حلف اٹھائے دس روز بھی نہیں گزرے ہیں کہ ملک میں ایک سیاسی تلاطم برپا ہے۔ سابق صدر باراک اوباما نے بھی اپنے جانشیں کے اقدامات کو آئین مخالف، غیر امریکی اور بلاجواز قراردیتے ہوئے ان کے خلاف امریکی عوام کے سڑکوں پر نکل آنے کو سراہا ہے۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ یا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے دنیا بھر میں کام کرنے والے ایک ہزار عملداروں نے اندرون خانہ ایک یادداشت پر دستخط کئے ہیں جس میں صدر ٹرمپ کی سات مسلمان ممالک پر امریکہ سفری پابندی کو ناقابل قبول اور غیر آئینی قرار دیا ہے۔ انتہائی باوقار تعلیمی ادارے ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک سو پروفیسروں نے ایک مشترکہ اعلامیے میں ٹرمپ کی ایسی بندش کی مذمت کی ہے۔
سینیٹر چارلس شومر جس کا اپنا خاندان بھی انیس سو چالیس کی دہائی میں نیویارک میں بحر اوقیانوس پر تارکین وطن کے تاریخی جزیرے ایلس آئی لینڈ (جسے جزیرہ اشک بھی کہا جاتا ہے کہ آنسوئوں کا جزیرہ) پر اترا تھا اور اس کے سامنے قریبی جزیرے پر مجسمہ آزادی ہے، نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ آج مجسمہ آزادی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے ہیں۔ مجسمہ آزادی جس پر لکھا ہے’’اپنے تھکے ماندے لوگ، لتاڑے پچھاڑے مار کھائے ہوئے، گٹھڑیاں بنے لوگ سب مجھے دے دو میں ان کو خوش آمدید کہتی ہوں‘‘۔ اب امریکہ میں الٹی گنگا بہہ نکلی ہے ایسے صدارتی اقدامات جو امریکہ کے اعلیٰ آدرشوں اور اصولوں یہاں تک کہ قوانین اور آئین کے خلاف۔ لیکن ان اقدامات کے خلاف امریکیوں کی مزاحمت، افراد اور اداروں کی جانب سے تحرک نخل دار کے موسم پر پر امید بہار کا پتا دیتا ہے۔ امریکی جمہوریت اور انسانی حقوق ہر حالات اور قیمت پر۔ یہ انیس سو پچاس کا لینڈن بی جانسن یا کسی ایسے صدر کا زمانہ نہیں جب روزنبرگ جوڑے کو پھانسی دی گئی تھی اور فیض احمد فیض نے اپنی لازوال نظم ’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘ لکھی تھی- بعد میں اس جوڑے کے قانو ن دان بیٹے نے کئی برس تک تحقیق کر کے ثابت کیا کہ اس کے ماں باپ کو جھوٹے مقدمے اور جھوٹے الزامات کے تحت پھانسیاں دی گئیں۔ لیکن یہ اکیسویں صدی ہے جہاں صدر ٹرمپ امریکہ کا عیدی امین نہیں بن سکتا۔ نہ ہی امریکہ ٹرمپستان۔

.
تازہ ترین