• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے کالموں کے پہلے مجموعہ کا دیباچہ محترم مجید نظامی مرحوم و مغفور نے لکھا جس کا پس منظر، پیش منظر بہت دلچسپ ہے لیکن یہ کہانی پھر سہی فی الحال صرف اتنا شیئر کرنا ہے کہ اس ’’تاریخی‘‘ تحریر میں نظامی صاحب نے مجھے مثالیت پسند قرار دیا اور وجہ اس کی یہ بیان کی کہ میں ’’تیسری قوت‘‘ کی تلاش اور کھوج میں رہتا ہوں اور میری یہ کوشش عملیت پسندی کی نفی ہے۔ بات درست تھی کیونکہ پاکستانی سیاست میں کسی ’’تیسری قوت‘‘ کا امکان واقعی دور دور تک موجودنہ تھا لیکن میری مجبوری تھی جو میرے ہی اس شعر سے بخوبی سمجھی جاسکتی ہے۔کچھ اور نہیں وعدۂـ تعبیر کے بدلےہم خواب فروشوں سے کوئی خواب خریدےخواب دیکھنا ہم جیسے لوگوں کی ذمہ داری بھی ہے، مجبوری بھی اور مزدوری بھی جیسے ’’تیسری قوت‘‘ والے خواب کے ساتھ ساتھ میں ملک سے کرپشن کے خاتمہ والا خواب بھی دیکھتا رہا جس کی تعبیر تحریر ہوتی دکھائی دیتی ہے کہ آج یہ ملک کا ایشو نمبر ون بن کر سامنے ہے لیکن میں خو د کو مثالیت پسندی اور تھرڈ فورس کی تلاش تک محدود رکھوں گا کہ نظامی صاحب کا طعنہ اور اندازہ درست تھا لیکن پھر قدرت کو اس معاشرہ پر ترس آگیا۔ معجزہ ہو گیا کہ پٹی پٹائی پاکستان تحریک انصاف (PTI) غیرمتوقع طور پر ٹیک آف کر گئی جس کی سائنٹفک اور منطقی وجوہات اپنی جگہ لیکن میر ےنزدیک یہ پاکستانی عوام کے لئے قدرت کاخاص انعام تھا ورنہ کوئی تصور تو کرے کہ اگر PTI آج اتنی قوت، شدت، حدت کے ساتھ میدان میں نہ ہوتی تو ن لیگ بلکہ یوں کہئے کہ میاں برادران کس نمبر کے سیاسی آسمان پر براجمان ہوتے؟اور تو اور خود ن لیگئے بھی ان ’’سلاطین جاتی امرا‘‘ کے قریب نہ پھٹک سکتے۔تب دو سیاسی قوتیں تھیں۔ ایک پیپلزپارٹی دوسری ن لیگ۔ تیسری کی تلاش تھی تاکہ یہ دونوں اوقات اور کینڈے میں رہیں لیکن ہوا کیا؟ پی ٹی آئی زندہ ہوتی گئی اور پی پی پی بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد مرتی چلی گئی اور آج ایک صوبائی سطح کی پارٹی ہے جو پھر سے ’’چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ بننے کا تصور بھی نہیں کرسکتی، اداکاری اور بات ہے۔نقد نتیجہ یہ نکلا کہ آج ایک بار پھر قومی سطح پر دو ہی سیاسی قوتیں ہیں۔ ایک عدالت کے چکر لگاتی اور سچ جھوٹ، اصلی نقلی فیتے کاٹتی ن لیگ اور دوسری پی ٹی آئی جس نے ن لیگ کو گھسیٹ کر پاناما کی قربان گاہ میں لاکھڑا کیا۔ سواب مجھے نئے سرے سے ایک نئی ’’تیسری قوت‘‘ کی تلاش ہے جو ان دونوں کو اوقات اور کینڈے میں رکھ سکے کیونکہ ہماری قومی بیماری یہ ہے کہ ہم لوگ پی پی پی میں ہوں، ن لیگ یا پی ٹی آئی میں، ہمیں ’’اجارہ داری‘‘ہضم نہیں ہوتی۔ اک حد سے بڑھی ہوئی مقبولیت اورطاقت ہمارے دماغ بھی خراب کردیتی ہے اور ہاضمہ بھی۔ یعنی پھر سے ضرورت ہے اک ’’تیسری قوت‘‘ کی جو ان دونوں کو ذراٹھپ کر رکھے، چیک کا کام کرے کہ میری خواہش کسی کو ڈی موٹ یا پروموٹ کرنا کبھی نہیں رہا۔ ’’تکونی توازن‘‘ برقراررہنا چاہئے تاکہ عوام کو قرار نصیب ہو۔ کسی ایک کے بھی ضرورت سے زیادہ زورآور ہونے کا مطلب ہے باقی ذلیل ہوگئے کہ بدقسمتی سے یہی ہماری سرشت اور اجتماعی کردارہے۔اب چلتے ہیں پی ایس پی کے سربراہ برادر عزیز مصطفیٰ کمال کی طرف جس نے اک تازہ ترین بیان میں اک انتہائی خوبصورت اور اہم امکان کی نشاندہی کی ہے کہ ’’ہوسکتا ہے متحدہ مشرف کو ابو بنالے‘‘ پہلی بات یہ کہ پرویز مشرف مدتوں متحدہ کے ’’ابو‘‘ رہ چکے ہیں۔ خود مصطفیٰ کمال کے لئے بھی شاید وہ ’’دادا ابو‘‘ کے مقام پر فائز رہ چکے ہیں لیکن کیاکریں بھائی! سیاست کے سینے میں دل، کھوپڑی میں مغز، آنکھ میں حیا، خون میں وفا ذرا کم کم ہی پائی جاتی ہے لیکن مصطفیٰ کمال نے بات معرفت اور معرکےکی کردی ہے کہ اگر ایسا ہو جائے تو متحدہ جیسی مقامی، علاقائی اور وہ بھی منتشر کنفیوزڈسیاسی جماعت ایک جھٹکے میں قومی سطح کی پارٹی بن کے بین الاقوامی سطح پر بھی باعزت پہچان حاصل کرسکتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ’’تیسری قوت‘‘ والا خلا بھی بخوبی پر ہوسکتا ہے۔ پرویز مشرف کی سربراہی میں متحدہ کی ملک گیر پذیرائی کاامکان بہت روشن ہے جو ملک، متحدہ اور مشرف کے لئے بہت مثبت ہوگا۔عجیب لوگ ہیں وہ جو ’’پچھلے دروازے‘‘ سے پرویز مشرف کی اینٹری تو سالہا سال پی گئے اور اب اگر وہ فرنٹ ڈور سے داخل ہونا چاہے تو چیں بچیں۔ مجھے قطعاً کوئی شک نہیں کہ مشرف آج بھی بہت مقبول ہے، لوگ محبت اور عزت سے اس ’’ڈکٹیٹر‘‘ کے عہد کو یاد ہی نہیں مس بھی کرتے ہیں تو دوسری طرف سیاسی میدان میں ایک شخص بھی مشرف جیسے قد کاٹھ، تجربے اورامیج والا موجود نہیں۔ ہر وہ بین الاقوامی سطح کا فورم جو لاکھوں ڈالر معاوضہ دے کر مشرف کو بطور مدبر اسپیکر دعوت دیتا ہے ان میں سے کسی کو مفت بلکہ پیسے لے کر بلانا بھی پسند نہ کرے۔قصہ مختصر متحدہ اگرمشرف کو ’’ابو‘‘ بنا لے تو یہ ملک، متحدہ اور اس معاشرے کے لئے بہت ہی مثبت خبر ہوگی کہ اس سے بہتر ’’تیسری قوت‘‘ ممکن نہیں۔ ممکن ہو تو خود مصطفیٰ کمال بھی اس پر غور فرمائیں لیکن پھر وہی بات کہ سیاست کے سینے میں دل، کھوپڑی میں مغز، آنکھ میں حیا اور خون میں وفاذرا کم کم ہی ہوتی ہے۔

.
تازہ ترین