• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اتوار کے روز لائن آف کنٹرول اور افغان سرحد پر پاکستان کو جس بھاری گولہ باری کا نشانہ بنایا گیا اس کے تانے بانے بھارت کی خطے میں بالادستی قائم کرنے اور پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی اس خواہش سے ملتے ہیں جس کا اندازہ بھارتی لیڈروں کے قیام پاکستان کے وقت دیئے گئے بعض بیانات سے ہوتا ہے۔ یہ سوچ اس حقیقت سے مزید واضح ہے کہ جب مشرف دور میں سارک کانفرنس کے موقع پر پرویز واجپائی مشترکہ بیان کی روشنی میں دوطرفہ مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا، اس وقت بھی پاکستانی سرحد کے قریب ایسی جنگی مشقیں کی گئیں جن کا نام ہی پاکستان توڑنے کے مذموم عزائم کا مظہر تھا۔ موجودہ بھارتی وزیراعظم کی اس بات کا مبصرین اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپنے حقیقی عزائم کو مکر و فریب کے پردوں میں چھپاتے نہیں۔ اس لئے یہ امید وابستہ کی جاسکتی ہے کہ جب وہ خودیا ان کے جانشین اپنے پاکستان مخالف ہتھکنڈوں کے فوائد و نقصانات کا حساب لگائیں گے تو بالآخر امن بات چیت کی اصابت پر قائل ہوجائیں گے۔ اس وقت تک پاکستانی قیادت کو اپنے دفاع اور سلامتی کے تقاضوں کو نباہنے کے ساتھ ساتھ بھارتی رہنماؤں کو امن اور باہمی تعاون کے اس موقف پر قائل کرنے کی انتھک کوششیں جاری رکھنا ہوں گی جس کا سلسلہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے وقت سے جاری ہے۔ اتوار کے روز پاک سرزمین پر بلااشتعال گولے اگلنے والی توپوں کو جوابی کارروائی سے خاموش نہ کیا جاتا تو بات کنٹرول لائن کے قریب چار خواتین اور جنوبی وزیرستان میں ایک فوجی جوان کے زخمی ہونے پر نہ رکتی۔ ان اشتعال انگیز واقعات اور ان سے پہلے دہشت گردی کی نئی لہر کا پس منظر جاننے کے لئے اگرچہ 8اگست 2016سے مقبوضہ کشمیر میں جاری عوامی تحریک کی شدت اور بعد ازاں پاکستان کو تنہا کرنے کے بھارتی اعلانات کو سامنے رکھنا ہی کافی ہے مگر یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ بھارتی حکومت آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود جب کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو دبانے میں ناکام رہی اور مختلف ملکوں، اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن اور خود بھارت کے اندر سے بھی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں تو دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹانے اور پاکستان میں عدم استحکام کا تاثر اجاگر کرنے کے لئے جماعت الاحرار جیسے گروپ کو حرکت میں لانے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس گروپ کی قیادت اگرچہ افغانستان میں مقیم ہے مگراسے بھارت کے شہر چنائی سے ویب سائٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ لاہور میں سانحہ چیئرنگ کراس کی ذمہ داری اسی گروپ نے قبول کی تھی۔ اسی طرح داعش کو متحرک کیا گیا جسے پاکستان میں داخل کرنے کی بات اس وقت کہی گئی جب آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں قبائلی علاقوں میں جنگجو عناصر کی شکست واضح طور پر نظر آرہی تھی۔ سہون میں درگاہ لعل شہباز قلندرؒ پر خودکش حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی جس کے تانے بانے ایک طرف افغانستان سے ملتے ہیں دوسری طرف اہم بھارتی عہدیدار کا بیان نئی دہلی سے بھی اس کے تعلق کو واضح کرچکا تھا۔ معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جس سی پیک منصوبے کو سبوتاڑ کرنے کا ٹاسک داعش کو دیا جارہا تھا اس کی کامیابی کے امکانات گوادر بندرگاہ کے فنکشنل ہونے کی صورت میں واضح ہوچکے ہیں۔ پی ایس ایل کا دبئی میں کامیاب انعقاد اور لاہور میں فائنل میچ کے اشارے بھارت کے ایک اور مذموم منصوبے کی ناکامی ظاہر کررہے تھے۔ بھارتی آرمی چیف کے دورۂ کابل، بھارتی ایما پر افغان توپخانے کی پاکستانی سرحد پر منتقلی اور افغان سرزمین پر بھارتی قونصل خانوں میں فوجی مشنوں کے قیام کے فیصلے کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی انتظامات میں اشتراک کے امکانات نظر آرہے ہیں جبکہ پنجاب سمیت ملک بھر میں آپریشن ’’ردالفساد‘‘ کے آغاز نے بھارتی حکمرانوں کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے۔ان حالات میں اسلام آباد اور کابل دونوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ان کا مفاد ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں اور باہمی تعاون ہی میں مضمر ہے۔

.
تازہ ترین