• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں ’’بیلی پور‘‘ اور اس کے اردگرد گائوں ’’سلطانکے‘‘ اور ’’مل‘‘ وغیرہ میں اک وبا سی پھیلی جو کچھ جانوروں کی جان لے گئی۔ اس جان لیوا بیماری سے ہلاک ہونے والوں میں ہماری ایک بہت ہی خوبصورت قیمتی گائے بھی شامل تھی اور اس کی بچھیا بیچاری اکیلی رہ گئی جسے آج کل فیڈر سے دودھ پلایا جارہا ہے۔ ظاہر ہے مجھے گائے کی موت کا ملال تھا لیکن آصف زرداری صاحب کا حال دیکھ کر میں اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکرادا کررہا ہوں کہ آدمی کی گائے کا مرنا اس کی مت مارے جانے سے بدرجہا بہتر ہے۔ زرداری صاحب کی تو لگتا ہے مت ہی ماری گئی ہے ورنہ ایسی بہکی بہکی باتیں نہ کرتے۔ کیسی فضول اور بونگی دلیل ہے کہ عمران خان اس لئے پٹھان نہیں کیونکہ پشتو نہیں بول سکتا تو میں یہ پوچھتا ہوں کہ سندھ کے سادات جن کے بزرگوں نے عرب سے ہجرت کی تھی، کیا اس لئے غیر سید ہو جائیں گے کہ وہ عربی زبان نہیں بول سکتے؟ کیا علی احمد کرد اس لئے غیر کرد قرار پائیں گے کہ وہ کردی زبان نہیں جانتے یا یوسف رضا گیلانی کا ان کے گیلان سے تعلق پر اس لئے خط تنسیخ کھینچ دینا چاہئے کہ وہ فارسی زبان سے ناواقف یا نابلد ہیں۔ خود ہمارے ہاں ہائی پروفائل انگلش میڈیم سے پڑھے ہوئے ایسے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو اپنی ماں بولی پنجابی نہیں بول سکتے تو کیا وہ پنجابی نہیں رہیں گے؟ یہ بچے پنجابی بولتے بھی ہیں تو ایسے جیسے بلاول اپنی قومی زبان اردو بولتا ہے یا اس کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو ’’اذان بج رہا ہے‘‘ ٹائپ اردو سے عوام کو محظوظ فرمایا کرتی تھیں۔ رہ گیا عمران خان کا شجرہ جو ٹائیگر نیازی سے ملتا ہے تو زرداری صاحب کو چاہئے بینکوں کی سٹیٹمنٹس اور اپنی جائیدادوں کی تفصیلات پڑھنے کے ساتھ ساتھ کبھی تاریخ بھی پڑھ لیا کریں۔ زیادہ نہ سہی ایک بنگالی فوجی افسر شریف الحق والیم (بیراتم) کی کتاب "Bangladesh, An Untold Story"ہی پڑھ لیں اور پھر مت بھولیں یہ طعنہ عمران کو نہیں افواج پاکستان کو ہے۔ عمران خان کے شجرہ میں ہیبت خان نیازی کو کیوں بھول گئے؟ اب پوچھیں گے یہ کون تھا تو زرداری صاحب! ہیبت خان نیازی شیر شاہ سوری جیسے تاریخ ساز حکمران کا دست راست جرنیل تھا۔یہ تو تھی ہلکی پھلکی موسیقی لیکن جو کلاسیکل راگ چھیڑ کر آپ نے صوبائیت کی آگ کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے اسے شرمناک کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ آپ نے فرمایا ’’شہباز شریف پختونوں کا حصہ کھا رہے ہیں، ان کے پیٹ سے لوٹا ہوا پیسہ نکلوائوں گا‘‘ تواس بیان کا دوسرا حصہ قابل فہم ہے کیونکہ گزشتہ انتخابی مہم میں یہی کچھ آپ کے بارے میں بھی کہا تھا لیکن عالی ظرفی دیکھیں شہباز شریف نے بعد میں اس پر ایک سے زیادہ بار معذرت بھی کی تھی لیکن چلو خیر ہے آپ نے حساب برابر کردیا لیکن شہباز شریف پر پختونوں کا حصہ کھانے کا الزام پھپھے کٹنیوں جیسی حرکت ہے۔ آپ جیسوں کو تو اس شخص کا نام لینے سے پہلے سندھ کے کھنڈرات میں بیٹھ کر سو بار سوچنا چاہئے۔ کتھے بسم اللہ کتھے دھر دھر۔ آپ نے کراچی سمیت پورے سندھ میں اجاڑے پھیر دیئے۔ آپ کے چہیتے، سکینڈے نیویا سے عطا کی گئیں جدید ترین ایمبولینسزادھیڑ کر انہیں ویگنیں بنا کر چلاتے رہے، عزیر بلوچ ماتھے کا جھومر اور ڈاکٹر عاصم گلے کا نولکھا ہار اور بچپن کے یار ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی نقاب کشائیاں علیحدہ۔ سوئس بینک اور سرے محل بھی چھوڑیں کہ اصل کارنامہ تو پیپلز پارٹی کو ہائی جیک کر کے اس کا جوڑ جوڑ علیحدہ کرناہے۔ شہباز شریف کا مجھ سے بڑا ناقد کون ہو گا لیکن اس نے سندھ والی غارت گری نہیں صورت گری کی ہے۔ اختلافات ترجیحات پر ہیں لیکن آپ تو فرسٹریشن میں صوبائیت تک جا پہنچے تو یقین رکھیں اب کوئی چتر چالاکی، بول بچن اور جوڑ توڑ کام نہیں آئے گا۔اوراب آخر پر ایک بار پھر وہی رونا کہ سیاستدان بطور کمیونٹی ایک طرف اور اہل پاکستان دوسری طرف کہ پارلیمینٹرینز کی مراعات مزید بڑھانے کا فیصلہ ہو چکا۔ تاحیات پنشن اور انشورنس بل بھی تیار ہے۔ عوام کے نمائندوں کو ہیلتھ کارڈ بھی جاری ہوں گے۔ عوامی نمائندے کسی بھی ہسپتال سے علاج کرائیں بل اسمبلی سینیٹ سیکرٹریٹ ادا کرے گا۔ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی پارٹیوں نے اس کی حمایت کی ہے کیونکہ کھاتے وقت سب انگلیاں برابر ہو جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ منتخب نمائندوں کی تنخواہوں میں پہلے ہی 146فیصد اضافہ ہو چکا اور اس ’’مزید‘‘ کے بعد قومی خزانے پر سالانہ صرف 3ارب روپے کا بوجھ پڑے گا جبکہ قومی خزانہ دراصل عوام کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے جو پہلے ہی چٹخی ہوئی ہے۔ عوام کی ریڑھ کی ہڈی پر اس رپورٹ کا بوجھ بھی قابل ذکر ہے جس کے مطابق چین سے بارہ سو ملین ڈالر قرض کے بعد پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری 52ارب ڈالر کے نتیجہ میں زرمبادلہ مزید کم ہوں گے۔یہاں کبھی عوام کیلئے کچھ زیادہ بھی ہوگا؟

.
تازہ ترین