• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سینٹرل سپریئر سروسز (سی ایس ایس) کے معیار کی موجودہ حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2016 ء کے امتحانات کی199 اسامیوں پر 9643 میں سے صرف 202 امیدوار پاس ہو سکے اور ان کامیاب امیدواروں نے انٹرویو کلیئر کر لئے ہیں۔ گویا 199اسامیوں کے لئے صرف202 امیدوار ہیں اس کے مقابلے میں 1990میں سی ایس ایس امتحان کےلئے 10ہزار امیدواروں نے حصہ لیا تھا ان میں سے تحریری امتحان اور انٹرویو میں ایک ہزار کامیاب ہوئے تھے اور انکے لئے صرف126پوسٹیں دستیاب تھیںدوسری طرف ہیومن رائٹس کمیشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اعلیٰ تعلیمی شعبہ درجہ بندی میں دنیا بھر کی 500صف اول کی جامعات میں جگہ نہ بنا سکا۔ سی ایس ایس امتحان کی اصل روح اعلیٰ تعلیمی شعبہ ہے اور اس حوالے سے ملکی تاریخ کے 70برسوں میں جتنا پیچھے جائیں سی ایس ایس اور اعلیٰ تعلیمی شعبے کے معیار کا گراف اتنا ہی بلندی کی طرف جاتا ہے۔ موجودہ معیار بہت تشویش کا باعث ہے اگر یہی حال رہا تو ا ٓنے والے وقتوں میں پاکستان کا انتظامی شعبہ نہایت کمزور ہوکر ر ہ جائے گا اورجامعات کو بھی معیار سے گری ہوئی فیکلٹی دستیاب ہو گی کرپشن اور اقربا پروری کے رجحانات میں اور بھی اضافہ ہو گا۔ یہ بڑا نازک معاملہ ہے تعلیمی شعبہ میں پرائمری سے لیکر اعلیٰ تعلیمی سطح تک نصاب کا جائزہ لینے، اہلیت و لیاقت میں اضافے کی تدبیر کرنے، میرٹ کی پابندی یقینی بنانے اور مستقبل کے چیلنجوں بالخصوص سمٹتی ہوئی دنیا کو سامنے رکھ کر تعلیمی اصلاحات نافذکرنا ہوںگی۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن حکام سی ایس ایس کے گرتے ہوئے معیار کا ذمہ دار ہائر ایجوکیشن کو قرار دے رہے ہیں تاہم ایچ ای سی نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا جبکہ سینئر بیورو کریٹس کا کہنا ہے کہ بیورو کریسی میں سیاست کا عمل دخل ہونا موجودہ صورتحال کا سب سے بڑا عنصر ہے حکومت اور متعلقہ شعبے آنے والےچیلنجوں کو سامنے رکھ کر سوچیں اور جہاں بھی خرابی ہے اس کی نشاندہی کرکے مربوط تعلیمی ڈھانچہ تیار کریں۔

.
تازہ ترین