• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی پارٹیوں کا منشور اور امیگریشن!!...امیگریشن قوانین … ڈاکٹر ملک کے ساتھ

برطانیہ میں تارکین وطن کی تعداد چودہ ملین کے لگ بھگ ہے۔ ان تارکین وطن کی اکثریت یہاں پر آباد ہوچکی ہے لیکن ان میں سے چارملین کے لگ بھگ ایسے تارکین وطن ہیں جو کہ زیادہ عرصہ سے یہاں پر آباد نہیں ہیں۔ ابھی تک ان کا رابطہ ان کے آبائی ممالک سے ہے۔ اسی طرح ایک ملین کے قریب ایسے تارکین وطن بھی ہیں جوکہ یہاں پر مستقل سکونت حاصل کرنے کی تگ و دو میںمصروف ہیں۔ یہ پانچ ملین تارکین وطن کئی طرح کے امیگریشن سے متعلقہ مسائل کا شکارہیں۔ چونکہ یہ تارکین وطن یا امیگرنٹس آپس میں متحد نہیں ہیں، اس لئے یہاں برطانیہ میں موجود تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ان کے مسائل پر توجہ نہیں دے رہی ہیں۔ اب آئندہ تین ہفتوں میں عام انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور کااعلان کردیا ہے۔ برطانیہ میں گزشتہ سات سالوں سے کنزرویٹو پارٹی کی حکومت برسراقتدار ہے۔ یہ پارٹی امیگریشن کے سخت خلاف ہے۔ انہوں نے وہ تمام قوانین اور پالیسیاں ختم کردی ہیں جن سے کہ کسی بھی طرح تارکین وطن یا امیگرنٹس کو فائدہ پہنچاتاتھا۔ گزشتہ سات سالوں سے انہوں نے امیگرنٹس کا قافیہ تنگ کررکھا ہے۔ اب انہوں نے اپنے نئے منشور کا اعلان کردیا ہے۔ ان کے اعلان کے مطابق، انہی کے عائد کردہ ہیلتھ چارج کی فیس میں اضافہ کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اس وقت ہر امیگرنٹ کو دو سوپونڈز سالانہ کے حساب سے ایک ہیلتھ چارج ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس ہیلتھ چارج کا اطلاق بھی اسی حکومت نے کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے عندیہ ظاہر کیا ہے کہ باہر سے آنے والوں کے لئے مزید سختیاں کی جائیں گی اور ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن کی آمد میں کمی کی جائے گی۔ اس وقت اگر کوئی برطانوی شہری اپنی شادی کی بنیاد پر اپنی بیوی یا خاوند کو بیرون ممالک سے لانا چاہتا ہے تو اس کے لئے لازمی ہے کہ اس کے پاس یا تو باسٹھ ہزارپانچ سو پائونڈز سے زائد رقم ہو یا پھراس کی سالانہ آمدنی اٹھارہ ہزار چھ سو پونڈز سے زائد ہو۔ اب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس رقم میں اضافہ کردے گی اسی طرح حکومت کے ارادے ہیں کہ وہ انتخابات میں کامیابی کے بعد بیرون ممالک سے آنے والے طلبا پر سختی کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ برسراقتدار کنزرویٹو پارٹی کے مدمقابل لیبرپارٹی نے تارکین وطن یا امیگرنٹس کے خلاف سختی کا اعلان تو نہیں کیا ہے لیکن ان کے حق میں بھی کوئی خاص اعلان نہیں کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے زبانی طور پر بتایا گیا تھا کہ یہ اقتدار میں آنے کی صورت میں اٹھارہ ہزار چھ سو والے قانون کو تبدیل کردیں گے لیکن اب اس ہفتے کو ان کے شائع ہونے والے منشور میں ایسی کسی بات کا ذکرنہیں ہے۔ امیگریشن کے حوالے سے دونوں پارٹیوں کے منشور دیکھ کر خاصی مایوسی ہوئی ہے لیکن اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم تارکین وطن اپنے مطالبات یا مسائل کے حل کے لئے خود متحد نہیں ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ بڑی سیاسی جماعتیں تارکین وطن کے مسائل کے ضمن میں دلچسپی نہیں دکھا رہی ہیں۔ اس وقت تک ہمارے لوگوں کی بڑی تعداد سیاسی پناہ یا اسائلم کی بنیاد پر برطانیہ میں آباد ہوئی ہے لیکن اگر موجودہ حکومت انتخابات میں کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو اب یہ راستہ بھی بند ہوجائے گا کیونکہ انہوں نے حال ہی میں ایک نئی پالیسی بنائی ہے جس کے تحت سیاسی پناہ ملنے والوں کو بھی پانچ سالوں کے بعد مستقل سکونت نہیں دی جائے گی امیگرنٹس یا تارکین وطن کی بدقسمتی یہ ہے کہ جس کو یہاں پر سکونت مل جاتی ہے وہ اپنے آپ کو امیگرنٹ یا تارک وطن سمجھنا چھوڑ دیتا ہے اور اپنے آپ کو خود فریبی کے ایک خول میں محفوظ سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ باقی رہے وہ امیگرنٹس جو کہ یہاں پر سکونت کے خواہاں ہیں اور اسی تگ ودو میں ہیں، یہ بے چارے اپنی دال روٹی اور آبائی ملک میں خاندان کے کفالت کرنے کےچکر میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے سوچیں یا وقت نکالیں۔ امیگریشن والے ان کی انہی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایک ایک کو نشانہ بناکر ان کاشکار کررہےہیں اور یہ ’’گور پیا کوئی ہور‘‘ کے مصداق کسی معجزے کے منتظر ہیں۔ شایدایسا معجزہ، انتخابات کے بعد کسی ایمنسٹی کی صورت میں جلوہ غیب سے نمودار ہوجائے۔

.
تازہ ترین