• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما لیکس کے حوالے سے حکمراں خاندان کے احتساب کے لئے شروع ہونے والا عدالتی عمل جس کے تحت گزشتہ روز خود وزیر اعظم نواز شریف عدالت عظمیٰ کی بنائی ہوئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پوری خندہ پیشانی کے ساتھ پیش ہوئے اور تین گھنٹے تک اپنے ہی ماتحت اداروں کے افسروں کے سوالوں کے جواب دیتے رہے،فی الحقیقت معاشرے میں صحت مند اقدار کی ترویج کا نہایت خوش آئند مظاہرہ ہے۔ بے لاگ احتساب اور انصاف ہی معاشرے کی بقا اور سلامتی کی ضمانت ہوتا ہے اور یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان کی عدلیہ اپنے آہنی عزم اور سیاسی اور جمہوری قوتوں کی جدوجہد کے نتیجے میں الحمد للہ آج اس حد تک آزاد ہے کہ حکمراں اس کے سامنے احتساب کے کٹہرے میں کھڑے ہیں، ورنہ قیام پاکستان کے چند برسوں بعد ہی سے نظریہ ضرورت کا آسیب ہمارے عدالتی نظام پر مسلط چلاآرہا تھا جس کے باعث آمرانہ حکومتوں کے جمہوریت کش اور آئین شکن اقدامات کو اعلیٰ عدالتوں سے بآسانی سند جواز مل جایا کرتی تھی، فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں بندوق کے بل پر آئین کی منسوخی اور معطلی کے اقدامات کے جائز ہونے کے فیصلے معمول کا حصہ تھے۔ لیکن آج ہماری عدالتیں منتخب حکمرانوں کو گھر بھیجنے کے فیصلے تک کرنے کے لیے آزاد ہیں، قانون اور انصاف کی یہ حکمرانی یقینا ایک بڑی قومی کامیابی ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے وزیراعظم نے باخبر ذرائع کے مطابق یہ موقف اختیار کیا کہ وہ 1985ء میں خاندانی کاروبار سے الگ ہوگئے تھے اور بیرون ملک جائیداد یا کاروبار سے اب ان کا کوئی تعلق نہیں۔تاہم اگر ان کے ادوار حکومت میں ان کے خلاف کسی قسم کی کرپشن، سرکاری سودوں پر کمیشن اور کک بیکس وغیرہ کی وصولی کے حوالے سے کوئی شکایت ہو تو ان سے اس کے بارے میں ضرور پوچھا جائے۔ جے آئی ٹی کے سوالات کا جواب دینے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی جانب سے پائی پائی کا حساب دے دیا گیا ہے،ان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف سرکاری خزانے میں خورد برد اور کسی بھی قسم کی کرپشن کا کوئی الزام نہیں بلکہ شریف خاندان کے نجی کاروباری معاملات کو الجھایا اور اچھالا جارہا ہے۔ دوسری جانب قطر کے سابق وزیر اعظم پرنس حماد بن جاسم الثانی نے توثیق کردی ہے کہ اگر تحقیقاتی ٹیم ان کا بیان لینے کے لیے قطر پہنچی تو وہ اپنے خط کے تمام مندرجات کی تصدیق کریں گے۔توقع ہے کہ یہ مرحلہ بھی آنے والے چند روز میں طے ہوجائے گا جس کے بعد تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کی تیاری عمل میں آئے گی۔ اس رپورٹ میں کیا ہوگا اور سپریم کورٹ کی جانب سے کیا فیصلہ آئے گا، اس بارے میں کسی کے لیے بھی کچھ کہنا مشکل ہے۔تاہم فیصلہ جو بھی ہو اس سے ہمارے معاشرے میں قانون کی حکمرانی کی بنیادیں مضبوط ہوں گی بشرطیکہ احتساب کے عمل کو محض ایک خاندان تک محدود نہ رکھا جائے۔پاناما پیپرز میں سیاست، سول اور ملٹری بیورو کریسی، صنعت، کاروبار، عدلیہ اور صحافت سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جن سینکڑوں ممتاز پاکستانیوں کے نام ہیں انہیں بھی غیرجانبدار احتسابی عمل سے گزارا جائے۔ اور اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ ماضی میں جو حکمراں قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ میں کھلم کھلا ملوث رہے ہیں،جو سیاستداں، جرنیل، عدلیہ کے ارکان، صحافی اوراینکر قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک خفیہ کھاتوں میں منتقل کرتے رہے ہیں جس کی مالیت دو سو ارب ڈالر تک بتائی جاتی ہے اور آج بھی جولوگ کرپشن کی دلدل میں گلے گلے دھنسے ہوئے ہیں، ان سب کے بے لاگ مواخذے کے لیے ایک مستقل، ہمہ جہت، کل وقتی، بے لاگ اور خود کار نظام احتساب روبعمل لایاجائے تاکہ ملک کو کرپشن کی لعنت سے دائمی نجات مل سکے جبکہ حکمراں خاندان کے احتساب کے عدالتی عمل پر غیرضروری سیاسی بیان بازی کی روک تھام بھی ضروری ہے، سیاستدانوں کو لاحاصل پروپیگنڈے کے ذریعے معاملے کو الجھانے کے بجائے ٹھوس حقائق کی بنیاد پر بات کرکے اسے سلجھانے میں تعاون کا پابند کیا جانا چاہئے۔

 

.

تازہ ترین