• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امام صاحب نے جونہی نمازکے آخر میں سلام پھیرا ایک چودہ پندرہ سال کا لڑکا کھڑا ہوگیا اور روتے روتے کہنے لگا میںبہت غریب ہوں اسکولوں کی فیس ادا نہیں کرسکتا اگر فیس ادا نہ کی تومیرا نام کٹ جائیگا میرے گھر میں بھی کھانے کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ، میرے والدبیمار ہیں پانچ چھوٹی بہنیں ہیں اور وہ یہ کہتے کہتے زارو قطار رونے لگا، مسجد میں کچھ بزرگوں نے روک کر کہاکہ مسجد کے اندر یوں مانگنا یا سوال کرنا منع ہے تم گیٹ پرچلے جائوجب نمازی باہر جائیں تو ان سے سوال کرنا جس نے تمہاری مدد کرنا ہوئی وہ مسجد کے گیٹ پر تمہاری مدد کردے گا، لڑکا جاتے جاتے ایسے بلک بلک کر رو رہا تھا کہ ہر کسی کا دل پسیج رہا تھا، مساجد میں عموماً ایسا ہونے لگا ہے آپ جیسے ہی سلام پھیریں ایک آدھ شخص کھڑا ہوکر واویلا شروع کردیتاہے ہوسکتا کہ کچھ حقیقی ضرورت مند بھی ہوں لیکن اکثر ڈرامہ باز ہی ہوتےہیں، رمضان میں گداگروں کی بہتات ہوتی ہے اور یہ اس مبارک ماہ میں مخصوص الفاظ میں ضرورت بیان کرکے یا واویلا کرتے ہوئے اچھی بھلی رقم اکٹھی کرلیتے ہیں، یہ لڑکا بھی جو زارو قطار رو رہا تھا مجھے یقین تھا کہ ڈرامہ بازہے کیونکہ اس وقت تمام تعلیمی ادارے گرمی کی چھٹیوں کی وجہ سے بند ہیں اور فوری طورپر کسی اسٹوڈنٹس کے نام کٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مسجد سے باہر نکلے تو وہ بچہ مسلسل رو رہا تھا اور مسجد سے نکلتے ہوئے نمازی اس کے ہاتھ میں دس ، بیس اور سو پچاس کے نوٹ تھما رہے تھے کہ ایک نمازی نے آنسوؤں سے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں والے اس بچے کو روپے دینے کی بجائے پوچھ لیا کہ بیٹا تمہارا کونسا اسکول ہے اور تمہاری کتنی فیس ہے بچہ شاید اس سوال کے لئے تیار نہیں تھا وہ اسکول کا نام اور فیس کی مالیت بتانے کی بجائے آئیں بائیں شائیں کرنے لگا، اسکول اور فیس کو چھوڑ کر وہ اپنی اور گھر والوں کی غربت کا رونا رونے لگا اور چند ہی سوالات میں اس کا سارا پول کھل گیا کہ وہ کسی اسکول میں میں نہیں پڑھتا بلکہ پیشہ ور گداگر ہے اور زارو قطار آنسوؤں سے رونے کیلئے اس نے اپنے پاس گلیسرین رکھی ہوئی ہے ، نمازیوں نے ڈانٹ ڈپٹ کرکے اسے بھگا دیا لیکن سب کو یقین تھا کہ کمائی کا یہ آسان اور مجرب نسخہ وہ ترک نہیں کرے گا، میں نے ایک بزرگ سے سناہے کہ گداگر کو خالی ہاتھ نہ لوٹائو اور اس سے نہ تحقیق یا ڈانٹ ڈپٹ کرو، لیکن پھر بھی میری گزارش ہے کہ غیر مستحق کو دینےسے مستحق کا حق مارا جاتا ہے ، اور خاص طورپر وہ لوگ جو مانگ نہیں سکتے وہ گھر کی چار دیوار ی کے اندر سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن وہ خاندان اپنے بچوں کو کھانے کی ضرورت بھی پوری نہیں کرپاتے ، اسی لئے ہمارے معاشرے میں مائیں بچوں سمیت خودکشی پر مجبور ہورہی ہیں، اپنی کمائی کا صدقہ ، فطرانہ یا زکوٰۃ یا آپ کی سخاوت کے زیادہ حقدار ایسے سفیدپوش لوگ ہی ہیں اور ایسے لوگ آپ کے اردگرد یا قرب و جوار میں نہ بھی رہتے ہوں تو بھی انہیں تلاش کرنا مشکل نہیں ہوتا چھوٹے چھوٹے خوانچہ فروش، ریڑھے کھینچنے والے ، ردی یا کباڑ اکٹھا کرنے والے سائیکلوں پر پھیری لگا کر غبارے یا دیگر معمولی معمولی اشیاء بیچنے والے آپ کو روزانہ درجنوں لوگ مل جائینگے ، درختوں کی اوٹ میں ایک ٹوٹا ہوا شیشہ اور بوسیدہ سی کرسی لگائے حجام کاکام کرنےوالا بھی انہی ضرورت مند لوگوں میں ہوتا ہے ، سکیورٹی گارڈکی وردی پہنے ٹخنوں سے اوپر چڑھی پینٹ اور نیچے شوز کی بجائے سوفٹی پہنے چوبیس چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دینے والا یہ اہلکار بھی آپ کی مدد کا حقدار ہوتا ہے ، سرپر بھاری ٹوکرا اٹھائے اور کلائیوںپر بھی سامان لٹکائے سارا دن گرمی و سردی میں پھیری لگانے والا بھی آپ کی مدد کا حقدار ہوتا ہے ان محنت کشوں میں ایک کمی ہوتی ہے کہ انہیں مانگنے کا ہنر نہیں آتا لیکن آپ کو بہانے سے ان کی مدد کا ہنر ضرور آنا چاہیے تو یقین کیجئے ہماری مدد کے صحیح حقدار یہ ہی ہیں جو سارا دن مانگنے کی بجائے محنت کرتے ہیں لیکن کسی کی ماں دوا کے بغیر مرجاتی ہے اور کسی کا بچہ فیس نہ ہونے کی وجہ سے اسکول جا نہیں پاتا اور کسی کی بیوی بچوں کے عید کے کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے کنوئیں میں کود جاتی ہے۔ حقد ا ر اورمستحق لوگو ں کو پہچا ننا بہت ضرو ری ہے۔

 

.

تازہ ترین