• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 پاکستان کو بہت سے عالمی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک عالمی سازش کے تحت پاکستان کو گھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سازش میں امریکہ، افغانستان، بھارت اور ایران اتحادی کے طور پر سامنے آرہے ہیں، ہر نئے دن کے ساتھ پاکستان کے لئے مشکلات بڑھتی ہی جارہی ہیں، کبھی افغانستان سرحدی کشیدگی میں اضافہ کرتا ہے تو کبھی ایران کے ذریعے پاکستانی سرحد پر کشیدگی پیدا کی جاتی ہے جبکہ بھارت تو مستقل ہی پاکستانی سرحدوں پر تنازعات کے ساتھ نبردآزما رہتا ہے، سرحدوں پر پیدا ہونے والی اس مشکل صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لئے پاک فوج تو پوری طرح چوکس بھی ہے اور دشمن کو جواب بھی دیتی ہے لیکن دیگر اداروں کو بھی پاکستان کو ان مشکل چیلنجز سے نکالنے میں کردار اد اکرنا ہوگا۔ ملک کے سفارتی دفاع کی بھی پاکستان کو اتنی ہی ضرورت ہے جتنی سرحدی دفاع کی ہے، لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض معاملات پر ہماری سفارتکاری انتہائی مایوس کن ہے جبکہ بھارت نے اپنی سفارتکاری سے پاکستان کو بہت نقصان بھی پہنچایا ہے۔ ہمارے سفارتکار تمام حالات و واقعات سے آگاہ ہونے کے باوجود اپنی ذمہ داریوں کو اس طرح ادا نہیں کررہے جس کی اس وقت پاکستان کو ضرورت ہے، دنیا کے کئی اہم ممالک میں تعینات ہمارے سفیر اور سفارتکار ان ممالک کی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں وہاں کے سیاستدانوں سے تعلقات بھی استوار کرتے ہیں۔ بڑی بڑی پارٹیاں منعقد ہوتی ہیں سرکاری فنڈز کا بے دریغ استعمال بھی کیا جاتا ہے لیکن نتائج مایوس کن ہی نظر آتے ہیں، مجھے دنیا کے کئی ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا ہے اور کئی ممالک میں پاکستانی سفارتکاروںسے ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن کئی بار مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے، سب سے زیادہ مایوسی بلجیم کے دارالحکومت برسلز جسے یورپ کا دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے میں ہوئی جہاں یورپی یونین کی جانب سے منعقد ہونے والی ایک تقریب میں پاکستان کے سابق وزیر قانون مقرر تھے۔ عالمی میڈیاکے علاوہ پاکستانی سفارتی حکام اور کچھ این جی اوز کے لوگ بھی موجود تھے، سابق وزیر قانون کے خطاب کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو اچانک ایک شخص جو نہ صحافی تھا اور نہ ہی کسی این جی او سے اس کا تعلق تھا، نے کھڑے ہوکر پہلے تو حکومت پاکستان اور پاک فوج کو برا بھلا کہا اور اس کے بعد پاکستان مخالف سوال بھی کیا، کچھ ہی دیر بعد کراچی کی ایک سیاسی تنظیم کا فرد کھڑا ہوا اور اس نے پہلے پاکستان اور قومی دفاعی ادارے کی برائیاں کیں اور پھر پاکستان مخالف سوال کیا، لیکن کوئی ایسا فرد یا صحافی موجود نہیں تھا جو کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد کے حوالے سے مقرر سے سوال کرتا تاکہ عالمی میڈیا اس کو بھی مانیٹر کرلیتا، لہٰذا سب سے آخر تک انتظار کرنے کے بعد راقم نے ہی اس حوالے سے مقرر سے سوال بھی کیا اور بلوچستان اور کراچی میں غیر ملکی مداخلت کے حوالے سے بھی آواز بلند کی، تقریب کے بعد ہمارے سفارتکار مقرر کو بتانے لگے کہ بھارت خفیہ ایجنسی کے ذریعے بلوچستان اور کراچی کے حوالے سے سوالات کرنے والوں کو بھاری رقمیں فراہم کرکے پاکستان کو بدنام کرانے کے لئے ایسی تقریبات میں بھیجتا ہے تاکہ اگلے روز پاکستان مخالف خبریں مغربی اور عالمی اخبارات میں شائع ہوں۔ برسلز یورپ کا اہم ترین شہر ہے یہاں نیٹو کا ہیڈکوارٹر موجود ہے، عالمی سطح پر بھی برسلز کی اہمیت ہے اس ملک میں حکومت پاکستان بھی سفارتخانے کو بھاری بجٹ فراہم کرتی ہوگی، جس طرح امریکہ اور برطانیہ میں کیا جاتا ہے، ان ممالک میں سرکاری سطح کی لابنگ کے لئے سالانہ کئی ملین ڈالر رکھے جاتے ہیں لیکن اکثر سفارتکار قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں، حال ہی میں جاپان میں بھی ایسا ہی تکلیف دہ معاملہ منظر عام پر آیا، بھارت نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے بلوچ علیحدگی پسندوں کی جاپانی ارکان پارلیمان سے ملاقات اور خطاب کروایا لیکن ہمارے سفارتکار اس واقعہ پر اظہار افسوس کرنے کے سوا کچھ نہ کرسکے بہت زیادہ ہوا تو سرکاری سطح پر جاپان سے اظہار ناراضی کردیا، یہ معاملہ بھی میڈیا کے سامنے اس وقت آیا جب اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق جاپان پہنچے اور انہوں نے اپنے خطاب میں اس واقعہ سے میڈیا کو آگاہ کیا، جاپان میں ہمیشہ ہی ڈپلومیٹک سفارتکار بطور سفیر تعینات ہوتے ہیں بڑی بڑی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، اہم حکومتی شخصیات سے ذاتی تعلقات کے دعوے بھی کئے جااتے ہیں لیکن آج تک مقبوضہ کشمیر سے کوئی سیاستدان یا حریت لیڈر جاپان آکر جاپانی ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات نہیں کرسکا، مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم سے جاپان کو آگاہ نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی جاپانی حکومت کی جانب سے کشمیر کے عوام کے لئے کوئی مثبت بیان سامنے آیا ہے۔ یہ بلاشبہ پاکستان کی بڑی سفارتی ناکامی ہے جس کی ذمہ داری اٹھانے والا کوئی نہیں ہے، بات صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ قارئین کے لئے ایک مایوس کن خبریہ بھی ہے کہ پاکستان سے انتہائی محبت کرنے والے جاپانی رکن پارلیمنٹ اور عالمی شہرت یافتہ جاپانی ریسلر جس سے پاکستان کے عوام بھی بہت محبت رکھتے ہیں وہ بھی پاکستان سے مایوس نظر آتا ہے اور بھارت بھی اس بات سے واقف ہے۔ یہی وجہ ہے بھارت کی جانب سے اس اہم شخصیت کو نہ صرف بھارت کے سرکاری دورے کی دعوت دیدی گئی ہے بلکہ جاپان میں بھارتی آموں کو فروغ دینے کے لئے بھاری معاوضے کے ساتھ برانڈ ایمبیسیڈر تعینات کرنے کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں تاکہ اس اہم شخصیت کی ہمدردیاں پاکستان سے ہٹ کر بھارت کی جانب ہوسکیں اور کیونکہ وہ ایک رکن پارلیمنٹ بھی ہے وہ پارلیمنٹ میں بھی بھارت کے حق میں آواز بلند کرسکے، اگر ایسا ہوگیا تو واقعی یہ بھارت کی اہم سفارتی کامیابی ہوگی اور پاکستان کی بڑی سفارتی ناکامی کیونکہ انوکی کی پاکستان کے ساتھ محبت کئی دہائیوں پر محیط رہی ہے اس کا اسلامی نام بھی محمد حسین انوکی ہے لیکن پاکستان میں کئی بار انوکی کو اس کے خرچے پر ہی بلایا گیا، ہم نے انوکی کو تصاویر کھنچوانے کے لئے ہی استعمال کیا ہے یا اسے پاکستان کے قومی تہواروں کی تقاریب میں بلوا کر تقریر کروالی جاتی ہے، کبھی انوکی خدمات قومی سطح کے مقاصد کے لئے حاصل نہیں کی گئیں، انوکی جو خود پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے فروغ کے لئے خدمات پیش کرنا چاہتے ہیں کو سرکاری مہمان کے طور پر بھی نہیں بلایا گیا۔ جاپان میں پاکستان کے نئے سفیر اسد مجید نے گزشتہ ہفتے سے ذمہ داریاں سنبھالی ہیں جو پہلے بھی جاپان میں تعینات رہ چکے ہیں، خود بھی بہترین جاپانی زبان بولتے ہیں اور جاپان میں پاکستانی کمیونٹی میں تاحال مقبول ہیں توقع ہے کہ ان کے دور میں پاکستان اور جاپان کے درمیان سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات میں بہتری آئے گی دونوں ممالک کے تعلقات ماضی کی طرح بلندیوں پر ہوں گے۔

تازہ ترین