• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقدس
اس ملک میں تقدس اور پامالی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، دامن وہی جس کی بابت ہر ’’پاک‘‘ دوسرے ’’پاک‘‘ سے کہتا ہے ’’اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت‘‘ پاک سرزمین میں جمہوریت کی یہ حالت کہ ’’گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں‘‘ اب جمہوریت اگرچہ ہے مگر اس پر ہر ایک طالع آزما نے اپنا اپنا اسٹکر لگا دیا ہے، اور اسے کم از کم وطن عزیز میں کہیں کا نہیں رہنے دیا گیا، شاید جس مقام سے ہم بصد شوق و ذوق گزر رہے وہ؎
وادی عذاب ہے یارو
چھین لو مجھ سے ذوق عذاب یارو
جمہوریت کا تقدس، اسمبلیوں کا تقدس، آئین و قانون کا تقدس، عدالتوں کا تقدس ، عورتوں کا تقدس، غریب عوام کا تقدس، کتنے ہی تقدس ہیں جن کا سب ورد کرتے ہیں، مگر مقدس رہے نہ مقدس کو پامال کرنے سے باز آئے، تقدس کو سکہ بنا کر چلایا، استعمال کیا اور کوڑے دان میں پھینک دیا، اب تو نقارخانے میں کوئی طوطی بھی نہ رہا، آواز کون اٹھائے گا، آوازئہ حق گم نہیں فوت بھی نہیں ہوا، مقتول ہے، کہیں بڑی اور آخری جے آئی ٹی میں چلے گا، اب ہم صوفیہ کا مانند مقام حیرت سے گزر رہے ہیں بس ان کی اور ہماری حیرت میں اتنا فرق ہے کہ ان کو حقائق بے پردہ نظر آئے ہمیں حقائق برقع پوش دکھائی دیئے، اور برقعے کسی اور نے نہیں سچ کو خود ہم نے پہنائے، اب تو فرد جرم بھی عائد نہیں کیا جا سکتا اجتماعی فرد جرم لگایا جا سکتا ہے، جب کسی معاشرے میں کسی کو اپنا اعتبار نہ رہے مگر وہ ظاہر نہ کرے تو اسے کہتے ہیں وہ عذاب جو آتا نہیں کمایا جاتا ہے، عقل تو عیار تھی ہی کہ سو بھیس بدل لیتی ہے، حسن بھی عیار ہے سو بھیس بدل لیتا ہے، ایسے میں کوئی سچا عشق کہاں سے آئے، اور اس سے بڑا کنٹیمپٹ کیا ہو گا تقدس کا کہ اسے بھی مقدس غلاظت قرار دے دیا جائے، اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ قصور وار کون ہے، میں نے تو یہ کہہ کر قلم سے جان چھڑائی کہ تو سچا میں جھوٹا، مگر معاف پھر بھی نہیں کیا، اور ن والقلم کہہ کر ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
٭٭٭٭
امید کو موت نہیں خواہش کو قرار نہیں
پاکستان میں ایسے آثار واضح نظر آنے لگے ہیں کہ اللہ کی قدرتِ مطلق اسے مٹنے نہیں دے گی، امید کا حق کوئی کسی سے چھین نہیں سکتا، دوام پاکستان کے ساتھ اچھی امید بھی زندہ رہے گی زندہ رکھے گی، البتہ خواہش کے ساتھ کتنے ہی سابقے لاحقے لگا دیں اس سے ہوس کی بو نہیں جاتی، خواہشات، تمنائیں لاغر کر دیتی ہیں محتاج بنا دیتی ہیں، اب مروجہ علوم سیکھنے کی نہیں اخلاقیات کا علم پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، اب تو کہنے، سننے، دیکھنے، کرنے والا کوئی بھی کسی کو کوئی طعنہ بھی نہیں دے سکتا، کہ طعنہ زن کی بھی اپنی کوالیفیکیشن ہوتی ہے جو ہمارے پاس نہیں، جب سب میاں فضیحت ہو جائیں تو نصیحت کب باقی رہ جاتی ہے، اب تو ہم نظام قانون آئین سے بھی کہتے ہیں؎
دم بھر جو ادھر منہ پھیرے او چندا
میں ان سے پیار کر لوں گی باتیں ہزار کر لوں گی
گویا چور کو روشنی زہر لگتی ہے، وہ اماوس کی راتوں کا انتظار کرتا ہے، اب تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کوئی کیوں چاند سے منہ سیاہ بدلی میں چھپانے کو کہہ رہا ہے، اور یہ حیرانی کی بات نہیں کہ بات گونگوں بہروں کی اشاراتی زبان میں کرنی پڑ گئی ہے، بہرحال ہم فطری مزاحیہ دور کے مزے لوٹ رہے ہیں کہ رو رو کر ہنسنے میں مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے، وقت نے کیسا حسین ستم کیا کہ مزاح کا عجیب اور انوکھا رنگ دے گیا، الغرض مزاح نئے دور میں داخل ہو گیا ہے، یہ کیا کم پیش رفت ہے، چینلز پر قومی مرثیے الگ الگ دھنوں میں گائے جا رہے ہیں، ہر ماتمی ڈرامے کا اپنا ڈائریکٹر ہے، غالب نے خواہشکے لئے بڑے ملفوف الفاظ استعمال کئے کسی کو سمجھ آ گئی کسی کے سر سے گزر گئے ؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
٭٭٭٭
سیاسی لوگ اور عاصی لوگ
ڈر کے مارے ہم نے اپنے عنوان میں ’’اور‘‘ لگا دیا کہ بات کہیں بالواسطہ سے براہ راست نہ ہو جائے، ویسے بھی فردِ جرم عائد کرنا عدالتوں کا کام ہے، اور ہمارا کوئی کام ہی نہیں کیا ہم سب بیروزگار ہیں کہ وقت گزاری کے لئے ہم بھی ہوئی صبح اور کان پر رکھ کر قلم نکلے کے بجائے ہوئی صبح اور کھول کر نیوز چینل بیٹھ گئے، الغرض بقول غالبؔ:’’صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا‘‘، اس لئے ہم حفظ ماتقدم کے لئے پہلے ہی کہے دیتے ہیں:’’کاوِ کاوِ سخت جانیہائے تنہائی نہ پوچھ‘‘، ہماری سیاست کے معمار عاصی لوگ ہیں، یہی وجہ ہے کہ ترقی بھی معکوس ہو گئی، علم سے تعلیم سے دوری پیدا کی گئی تاکہ طالع آزمائوں کو عوام اپنا حاکم بنائیں، کئی افراد آپ نے دیکھے ہوں گے کہ وہ بیٹھے بیٹھے پریس کانفرنس میں سیمینار میں خراٹے لیتے ہیں، سو ہم جاگتے میں سوتے اور سوتے میں جاگتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں، جب قوموں سے اجتماعی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو ظلم راج کرتا ہے، اور اہل ظلم کو خود اپنے ہاتھوں لایا اور سراہا جاتا ہے، دانائے کل ہادیٔ سبل ﷺ نے فرمایا :’’تحقیق کئے بغیر سنی سنائی کا یقین نہ کرنا‘‘ اور آج ہم پروپیگنڈے پر ایمان لے آتے ہیں، رشتہ کرنا تو سو سو تحقیق کرتے اور حکمران چننا ہو تو ذات، برادری اور لالچ کو رہنما بنا کر راہزن منتخب کرتے ہیں، ہم شاید عاصی لوگ ہیں کہ ایسے لوگوں کو اپنا رہنما بنا لیتے ہیں جو سیاستدان نہیں صرف دولت دان ہوتے ہیں اور دولت لوٹنے کا ہنر جانتے ہیں، اس فن کو وہ سیاست کا نام دیتے اور سرعام خود کو سیاستدان کہتے ہیں، سیاست کا مفہوم اپنی قوم کو منزل آشنا کرنا ہے، ان سے راستے چھیننا نہیں، صد شکر کہ خالق کائنات کی آنکھ، سوتی ہے نہ اونگھتی ہے، اور اپنا قانون عاصیوں اور سیاست نما عاصیوں پر لاگو کر دیتی ہے۔
٭٭٭٭
مریم تری جرأت رندانہ کو سلام
....Oمریم نواز:شاہد خاقان عباسی بھی نواز شریف ہے، کس کس کو روکو گے،
یہ بیان خود تبصرہ بھی ہے اور بیان بھی،
....Oایم کیو ایم کی سابق رکن اسمبلی ارم عظیم فاروقی نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کر دیا،
دو گئیں ایک آ گئی،
....Oسعد رفیق:ن کا جنون سر چڑھ کر بولے گا،
یہ جادو ہے یا سیاسی پارٹی؟
....Oظفر اللہ جمالی نے شاہد خاقان عباسی کے وزیراعظم منتخب ہونے پر اسمبلی ہال میں ٹافیاں بانٹیں۔
یہ اچھا شگون ہے، جمالی صاحب نے موقع و محل کے مطابق ٹافیاں بانٹیں۔
....Oمشرف:نواز شریف کی نا اہلی پر بھارت کو بہت تکلیف ہے،
بھارت کو تکلیف پہنچے اور کیا چاہئے، کچھ تو شہدائے کشمیر کی روحوں کو سکون ملے۔

تازہ ترین